Saturday, September 14, 2013

بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی

بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی --
===============

بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی --
کوئی چال وقت ہی چل گیا
نہ میں با خبر، نہ میں با کمال
میں خوش گماں ۔۔ تھی اسی خیال سے شادماں
کہ مرا ستارہ بھی گردشوں سے نکل گیا
مگرایک رات ہوا چلی، تو ہوا کی سانس میں آگ تھی
یہ گماں ہوا کہ لباس پرکوئی شمع جیسے الٹ گئی
مری چھت سے برق لپٹ گئی
مری نیند ایسے جھلس گئی ۔۔ مرا خواب اس طرح جل گیا
نہ وہ آنکھ میں رہی روشنی ۔۔ نہ وجود میں رہی زندگی
یہ بدن جو آج تپیدہ ہے ۔۔ مری روح اس میں رمیدہ ہے
مرے انگ انگ میں درد ہے
یہی چہرہ جو کبھی سرخ تھا ۔۔ ابھی زرد ہے
مرا رنگ کیسے بدل گیا؟
نہیں دن سے کوئی بھی آس اب
ہے اگر نصیب میں پیاس اب
کسی ابر پارے کی چاہ میں ۔۔ کبھی سر اٹھا کے جو دیکھ لوں
تو وہ گرم بوند ٹپکتی ہے ۔۔ کہ یہ جان تن میں تپکتی ہے
مرا آسمان پگھل گیا
نہیں غم نہیں ۔۔ کہ ہے میرے ماتھے پہ غم لکھا
مگر اس سے بڑھ کے ستم ہوا
کہ جو حرف مصحفِ دل پہ لکھا تھا عشق نے ۔۔ وہی مِٹ گیا
کسی اختیار کا پھیلتا ہوا ہاتھ تھا ۔۔ کہ سمٹ گیا
کوئی اعتبار کا تار تھا کہ جو کٹ گیا
وہ جو اسم تھا کبھی وردِ جاں ۔۔ وہ الٹ گیا
کوئی نقش تھا ۔۔ کسی اور نقش میں ڈھل گیا

No comments:

Post a Comment