Monday, August 17, 2015

وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ چل


 وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ چل
وقت سے کون کہے یار
ذرا آہستہ چل
گر نہیں وصل تو یہ خوابِ رفاقت ہی ذرا دیر رہے
وقفئہ خواب کے پابند ہیں
جہاں تک ہم ہیں
یہ جو ٹوٹا تو بکھر جائیں گے سارے منظر
(تیرگی ذاد کو سورج ہے فنا کی تعلیم)
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب کا پل نہ رہے
کچھ نہ رہے
وقت سے کون کہے
یار ذرا آہستہ چل

امجد اسلام امجد

زندگی کے میلے میں

زندگی کے میلے میں
خواہشوں کے ریلے میں

تم سے کیا کہیں جاناں
اس قدر جھمیلے میں

وقت کی روانی ہے،
بخت کی گرانی ہے

سخت بے زمینی ہے،
سخت لامکانی ہے

ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی

ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے

بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے

عمر بھر کی باتیں کب
دو گھڑی میں ہوتی ہیں

درد کے سمندر میں
اَن گِنت جزیرے ہیں،

بے شمار موتی ہیں!
آنکھ کے دریچے میں

تم نے جو سجایا تھا
بات اس دیئے کی ہے

بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں

چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پہ

ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے،

بات رَت جگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو

بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں

گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو

اِک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سن جاؤ

خواب مرتے نہیں

خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مرجائیں گے
خواب مرتے نہیں

خواب تو روشنی ہیں، نوَا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھُکتے نہیں
روشنی اور نوَا اور ہوا کے علَم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھُکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

 

Sunday, August 16, 2015

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے وہاں جانا پڑے تم کو ہماری یاد کوبھی ساتھ لے لینا سنا ہے اس جزیرے پر کبھی دو ہنس رہتے تھے وہ دونوں ایک دوجے کے دلوں پر راج کرتے تھے وہ اک دوجے کی آنکھوں میں اُترکر خواب چُنتے تھے وفا کے تانے بانے ریشمی باتوں سے بُنتے تھے پھر اس کی روز ہی تجدیدبھی کرتے مگر رُت کے بدلتے ہی ہوا ایسے وہ دونوں مختلف سمتوں میں چل نکلے سُنا ھےپھر کبھی اک ساتھ دونوں کو نہیں دیکھا محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے وہاں جانا پڑے تم کو تواس تنہا شجر کے پاس بھی جانا کہ جس کی ساری شاخوں کے لبادے پر، ہر اک جانب کسی کا نام لکھّا ہے سنا ہے لکھنے والا ،زندگی بھر پھر کبھی کچھ لکھ نہیں پایا وہ اپنی انگلیوں پر خون کی مہریں لگا بیٹھا مقدّر دار کر بیٹھا ۔۔۔وہ خود کو ہار کر،بیٹھا محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے وہاں جانا پڑے تم کو ہماری یاد کو بھی ساتھ لے لینا ہماری یاد تپتی دھوپ میں چھاؤں کی صورت ہے یہ ماضی کے کسی معصوم سے گاؤں کی صورت ہے

Thursday, August 13, 2015

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر


باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک

 کلام  اقبال صاحب 

Wednesday, August 12, 2015

کسا ہے جھوٹ کا پھندا گلے میں

سمندر کا تماشا کر رہا ہوں
میں ساحل ہو کے پیاسا مر رہا ہوں

اگرچہ دل میں صحرا کی تپش ہے
مگر میں ڈُوبنے سے ڈر رہا ہوں

میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر
شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں

قفس میں مجھ پہ جو بیتی سو بیتی
چمن میں بھی شکستہ پر رہا ہوں

اُٹھے گا حشر کیا محشر میں مجھ پر
میں خود ہنگامہِ محشر رہا ہوں

کسا ہے جھوٹ کا پھندا گلے میں
میں سچائی کی خاطر مر رہا ہوں

وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
میں جس پتھر کو سجدے کر رہا ہوں

مری گردش میں ہر سازِ الم ہے
جہانِ درد کا محور رہا ہوں

بنائی جو مرے دستِ ہنر نے
اُسی تصویر سے اب ڈر رہا ہوں

تراشے شہر میں نے بخش کیا کیا
مگر میں خود سدا بے گھر رہا ہوں

بخش لائلپوری​

کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے

مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش
میں عادتا سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

عباس تابش

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر


جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

پتھرو ! آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گذری ہو گی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے

اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تو نے کیا مجھہ کو محبت میں بنا رکھا ہے

غم نہیں گل جو کئے گھر کے ہواؤں نے چراغ
ہم نے دل کا بھی دِیا ایک جلا رکھا ہے

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے

حکیم ناصر

زندہ رہیں تو کیا ہے


زندہ رہیں تو کیا ہے
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا


ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
ایک خاک ہے جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا


دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
شام آ گئ اب لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

کوئی دوست ہے نہ رقیب ہے


کوئی دوست ہے نہ رقیب ہے
کوئی دوست ہے نہ رقیب ہے
تیرا شہر کتنا عجیب ہے


وہ عشق تھا،وہ جنوں تھا
یہ جو ہجر ہے،یہ نصیب ہے


یہاں کس کا چہرہ پڑھا کروں
میرے کون اتنا قریب ہے؟


میں کس سے کہوں میرے ساتھ چل
یہاں سب کے سر پر صلیب ہے


گلہ کریں تو کس سے کریں
جو ہو گیا وہ نصیب ہے


تیرا شہر کتنا عجیب ہے

کوئی ایک شخص تو یوں ملے


اس درد کی تحویل میں رہتے ہوئے ہم کو
چپ چاپ بکھـرنا ہے ،، تمـاشا نہیں کرنا


کوئی ایک  شخص تو یوں ملے
کے وہ ملے _ تو _ سکون ملے


یہاں کس کا چہرہ پڑھا کروں
یہاں سب کے سر پہ صلیب ہے



یہاں کس کا چہرہ پڑھا کروں
میرے کون اتنا قریب ہے؟

Tuesday, August 11, 2015

دلِ ناداں ،تجھے ہوا کیا ہے؟

دلِ ناداں ،تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق ،اور وہ بےزار
یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش! پوچھو کہ" مدّعا کیا ہے"
 
جب کہ تجھ بن نہیں، کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ، اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟

ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے، وفا کیا ہے؟
ہاں، بھلا کر، ترا بھلا ہوگا
اَور درویش کی صدا کیا ہے؟
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا ،دعا کیا ہے؟
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی


 از مرزا اسد اللہ خان غالب

Sunday, August 09, 2015

یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے ،

یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے ،
 جو روح کو تڑپا دے پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے 
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے 
محروم تماشا کو پھر دیدئہ بینا دے 
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
 بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے 
پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر اس محمل خالی کو پھر شاہد لیلا دے 
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو وہ داغ محبت دے 
جو چاند کو شرما دے رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر خودداری ساحل دے، 
آزادی دریا دے بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے 
احساس عنایت کر آثار مصیبت کا امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے 
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے

کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں

بجھی ہوئی شمع کا دھواں ھوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ھوں 
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں 
تیری ہی صورت کے دیکھنے کو بتوں کی تصویریں لا رہا ھوں 
کہ خوبیاں سب کی جمع کر کے تیرا تصور جما رہا ھوں 
کفن میں خود کو چھپا لیا ھے کہ تجھ کو پردے کی ھو 
نہ زحمت نقاب اپنے لیے بنا کر حجاب تیرا اٹھا رہا ھوں 
ادھر وہ گھر سے نکل پڑے ہیں ادھر میرا دم نکل رہا ہے 
الہی کیسی ہے یہ قیامت وہ آ رہیں ہیں میں جا رہا ہوں 
محبت انسان کی ھے فطرت کہاں ھے امکان ترک الفت وہ اور بھی یاد آ رہے ہیں 
میں ان کو جتنا بھلا رھا ھوں زبان پہ لبیک ہر نفس میں جبیں پہ سجدہ ہے 
ہر قرم پہ یوں جا رہا بت کدے کو ناطق کہ جیسے کعبے کو جا رہا ہوں 
بجھی ہوئی شمع کا دھواں ھوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ھوں 
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں

نہیں تو

یہ  غم کیا دل کی عادت ہے؟ 
نہیں تو کسی سے کچھ شکایت ہے؟ 
نہیں تو ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر اس کو بھلا دینے کی نیت ہے؟ 
نہیں تو کسی کے بن ،کسی کی یاد کے بن جیئے جانے کی ہمت ہے؟ 
نہیں تو کسی صورت بھی دل لگتا نہیں ؟ 
ہاں تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟ 
نہیں تو تیرے اس حال پر ہے سب کو حیرت تجھے بھی اس پہ حیرت ہے؟ 
نہیں تو ہم آہنگی نہیں دینا سے تیری تجھے اس پر ندامت ہے؟ 
نہیں تو ہوا جو کچھ یہ ہی مقسوم تھا کیا یہ ہی ساری حکایت ہے ؟
 نہین تو اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو امان پانے کی حسرت ہے ؟
 نہیں تو تو رہتا ہے خیال و خواب میں گم تو اس کی وجہ فرصت ہے ؟ 
نہیں تو وہاں والوں سے ہے اتنی محبت یہاں والوں سے نفرت ہے؟ 
نہیں تو سبب جو اس جدائی کا بنا ہے وہ مجھ سے خوبصورت ہے؟ 

یہ تیرے نام کے آنسو.

بہت جی چاہتا ہے مَیں ترے شانوں پہ سر رکھ کر بہا ڈالوں وہ سب آنسو. ... 
جو میرے دل کی شریانوں میں چھبتے ہیں اُبلتے ہیں کسی لاوے کی صورت 
اور آنکھوں تک نہیں آتے. کسی آغاز سے پہلے کسی انجام کے آنسو 
ترے ہمراہ سوچی عمر کی اک شام کو آنسو. 
کہیں دشتِ محبت میں نظر کی خوش خیالی کے سنہری دام کے آنسو 
یہ تیرے نام کے آنسو. 
بہا دوں سب ترے شانوں پہ سر رکھ کر تو شاید زندگی کا راستہ پھر سے چراغ آثار ہو جائے. 
اَنا کے قصہء نا مختمم میں ہار کا اقرار ہو جائے یہ دریا فاصلوں کا لمحہ بھر میں پار ہو جائے

جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں 
وہ نکلے میرے ظلمت خانئہ دل کے مکینوں میں 
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے
 تو نے اے مجنوں کہ لیلیٰ کیطرح تو خود بھی ہے 
محمل نشینوں میں مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں 
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
 کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے
 ہیں سفینوں میں جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس 
ان کی الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے
 اہلِ دل کے سینوں میں تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی نہیں 
ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
 نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں
 اپنی آستینوں میں ترستی ہے نگاہِ نارسا جس کے نظارے کو
 وہ رونق انجمن کی ہے انہیں خلوت گزینوں میں کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
 کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ نشینوں میں محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
 یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں 
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا بہت مدت سے
 چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں خاموش
 اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے
 محبت کے قرینوں میں برا سمجھوں انہیں،
 مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں

خوشیاں اور کامیابیاں

خوشیاں اور کامیابیاں اگر دائمی قائمی ہوں تو پھر شاید انسان انسان کی صورت میں زندہ ہی نہ رہ سکے - دکھ سکھ ، کامیابیاں ، ناکامیاں ، محبت نفرت اور جینے مرنے کے تغیر ہی تو اسے استحکام دیتے ہیں - اس کے ارادے مضبوط اور حوصلہ فراخ کرتے ہیں - تدبیر اور تقدیر کے فلسفے کو سمجھنے میں ممد ثابت ہوتے ہیں - اس کے لیئے راہوں اور منزل کا تعین کرتے ہیں

اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں

اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں 
اُداسیوں کا اگر یہ موسم ٹهر گیا تو عذاب کرے گا، 
نہ جی سکو گے نہ مر سکو گے 
نہ کام ہی کوئ کر سکو گے کسی کی ہر پل طلب کرے گا اُداسیاں 
بے سبب نہیں ہیں سنو جو لمحے ہیں آج حاصل، 
انہیں ہمیشہ سنبهال رکهنا وفا کے گلشن میں چاروں جانب بہار رکهنا نکهار رکهنا 
محبت کا وقار لکهنا، 
اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں 
جہاں میں کتنے ہی لوگ آے رہے بسے ہیں 
، اجڑ گئے ہیں مگر یہ جذبے ابد سے ہیں، 
اور ازل تک رہیں گے تم اپنی آنکهوں میں 
، پہلے جیسا جال رکهنا اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں 
زرا یہ سوچو بچهڑ گیے تو، کہاں ملیں گے یوں ہی رہیں گی تمام راہیں مگر 
یہ راہی نہ مل سکیں گے بہار میں بهی خزاں کی صورت نہ پهول ہر سمت کهل سکیں گے 
نہ دل کو اپنے اداس رکهنا، 
ہر اک جذبے کا پاس رکهنا 
ملیں گے آخر یہ آس رکهنا 
اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں

ریشم

محبت محبت ریشم کی طرح ھے ایک ھی وقت میں نرم اور سکون اور اسی کے ساتھ الجھاوا اور ڈر کھو دینے کا ڈر دوری کا ڈر مگر محبت اتنی خوبصورت اور انمول ھے کہ کم از کم ایک زندگی ایک پوری زندگی آخری سانس تک اسکے بدلے میں دے دی جائے اور اسکے ۔ بعد بھی طلب کا سفر جاری رھے اور جب آپ کی محبت روح کی طلب میں ڈھل جائے تو پھر وہ جسم سے ماورا ھو جاتی ھےاس محبت کے لئے عمر اور وقت کی کوئی قید نہیں مجھے یاد ھے

آنکھی

کچھ باتیں آنکھی دل میں دبی رہ جاتی ہیں

جو کبھی تپش ، کبھی خلش اور کبھی گھوٹن بن کر ہمشہ ستاتی ہیں

پھر یا آنکھی یادیں بن کر تمام  عمر آپ کا پچھا کرتی ہیں -

 

میں تم سے محبت کرتا ہوں

جب میں ایک شفاف آئینہ بن کر تمہارے سامنے کھڑا ہوا تو تم مجھے دیر تک غور سے دیکھتے رہے اور تمہیں مجھ میں اپنی صورت نظر آئی۔ پھر تم نے مجھ سے کہا: ’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘ لیکن درحقیقت تم نے مجھ میں اپنی ذات سے محبت کی تھی۔

خلیل جبران

اعتماد


محبت اعتماد سے نہیں، اعتماد محبت سے ہوتا ہے۔ محبت ہمیں لوگوں سے جُدا نہیں کرتی۔ ہمیں لوگوں سے جوڑتی ہے۔ ایک محبت ہمارا تعلق اللہ سے جوڑتی ہے۔ جو عشق کہلاتا ہے۔ محبت ہی وفا دیتی ہے اور محبت ہی یقین دیتی ہے۔ محبت ایک ایسا پھول ہے جسکی خوشبو ماحول کو معطر کردیتی ہے۔ محبت یہ نہیں کہ مزاج میں تلخی پیدا کرے بلکہ یہ تو تشنگی کو دور کرتی ہے

خدشے

یک طرفہ محبت میں دو بڑے فائدے ہیں - ایک تو یہ کہ اس میں ناکامی کا اندیشہ نہیں- دوسرا یہ کہ اس کا دورانیہ کسی دوسرے کی مرضی پر منحصر نہیں-
آپ جتنی دیر اس میں مبتلا رہنا چاہیں، بلا کھٹکے رہ سکتے ہیں-
 دو طرفہ محبت میں عاشق مزاج لوگوں کو ایک خدشے بلکہ کھلے خطرے کا سامنا ہوتا ہے-

محبت کرنے والا کسی سے جواب کی توقع نہیں رکھتا۔ وُہ بغیر جواب کے بھی رابطہ رکھتا ہے۔

 

خلوص

کسی کا خلوص سے ملنا بھی محبت ہے، پودے کو پانی دینا، درخت لگانا، کسی کو مسکرا کر دیکھ لینا، کسی ضرورتمند کی حاجت پوری کر دینا محبت ہے۔ جو شخص محبت کرتا ہے۔ اُس میں خلوص ہوتا ہے۔ اُس کا خلوص کسی ایک فرد کے لیئے نہیں تمام انسانیت کے لیئے ہوتا ہے۔ محبت چاہت ہے۔

برداشت

محبت برداشت سکھاتی ہے۔ جس نے برداشت پیدا کر لی، اُس نےزندگی سہل کر لی۔ جو لوگ رابطہ نہیں رکھتے؛ محب اُنکی بھی پروا کرتا ہے، کامیابی کے لیئے بھی دُعا کرتا ہے۔ محبت کرنے والا ایک روشن چراغ ہوتا ہے۔ اپنے دِل میں کئی کہانیاں لیئے ہوتا ہے۔ لوگوں سے مایوس کسی بھی حال نہیں ہوتا۔ محبت اُمید کی کِرن ہوتی ہے

نا اُمیدی

سہاروں کی تلاش ، نا اُمیدی کے بھنور میں لاپھینکتی ہے

 ___________________________________

دنیا کی سب سے سستی چیز "مشورہ" ہے ایک سے مانگو ہزار دیتے ہیں
دنیا کی سب سے مہنگی چیز "مدد" ہے ہزار سے مانگو کوئی ایک دیتا ہے!

___________________________________

زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ انسان پل بھر میں ماضی بن جاتا ہے

___________________________________


پتہ نہیں لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ان کی بے رخی ان کی قدر بڑھاتی ہے؟؟؟

محبت آوازو

محبت چہروں اور آوازوں سے تھوڑی کی جاتی ہے۔ محبت تو روح سے کی جاتی ہے، دل سے کی جاتی ہے۔ انسان سے کی جاتی ہے۔ اس کی خوبیوں سے کی جاتی ہے۔ محبت انسان کی غیر مرئی خصوصیت سی کی جاتی ہے۔ محبت ظاہری چیزوں سے نہیں کی جاتی۔

دور ہوتے جاتے ہیں

کبھی دو انسانوں کے درمیان کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ایک اپنی قدر جاننے کے لیے واپسی کے قدم اٹھاتا ہے تو صرف اس لیے کہ دوسرا اسے روکے گا۔۔۔ 
دوسرا اس انا کی دیوار سے لپٹ کے کھڑا رہتا ہے کہ مجھے اپنی طاقت دیکھنی ہے کہ وہ کیسے جا سکتا ہے ۔۔
 مگر دونوں اسی زعم میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں

آپ کی ذات

سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب آپ کو اس بات کا احساس ہو کہ آپ کی ذات اس شخص کے لئے اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے جس کے لئے آپ اپنی ہر خوشی قربان کرسکتے ہیں

Saturday, August 08, 2015

اشفاق احمد زاویہ

تخلیق ہمیشہ محبّت سے پھوٹتی ہے - اس کو محبت ہی پال پوس کر پروان چڑھاتی ہے- پھر یہ محبت ہی کی طرف قدم بڑھاتی ہے اور اسی میں گم ہو جاتی ہے - لیکن محبت کا دروازہ ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا اور اپنے نفس سے منہ موڑ لیتے ہیں - اپنی انا کو کسی کے سامنے پامال کر دینا مجازی عشق ہے - اپنی انا کو بہت سوں کے آگے پامال کر دینا عشق حقیقی ہے - محبت جنسی جذبے کا نام نہیں - جو لوگ جنس کو محبت کا نام دیتے ہیں وہ ساری عمر محبت سے عاری رهتے ہیں - جب محبت اپنے نقطہ عروج پہ پہنچتی ہے جنس خود بہ خود ختم ہو جاتی ہے جنس سے انحراف کر کے یا اسے دبا کر اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا - محبت میں اتر کر اس سے گلو خلاصی کی جا سکتی ہے - محبّت کا سفر اختیار کرنے کے لیے پہلی منزل فیملی یونٹ کی ہے - جو شخص پہلی منزل تک ہی نہیں پہنچ پاتا وہ آخری منزل پر کسی صورت بھی نہیں پہنچ سکتا فیملی اور کنبے کو قائم رکھنا محبّت ہی کی ذمیداری ہے - محبّت کے بغیر انسان ایک فرد ہے - ایک ایگو ہے - خالی انا ہے - اس کا کوئی گھر بار نہیں ، کوئی فیملی نہیں ، اس کا دوسروں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ، کوئی تعلق نہیں - یہ بے تعلقی یہ نا رشتیداری موت ہے ، زندگی تعلق ہے ، رشتےداری ہے

محبت کے کئی روپ اور نام ہیں

محبت کے کئی روپ اور نام ہیں ، 
محبت خدا سے ہو تو عبادت بن جاتی ہے 
،غریبوں ے ہو تو رحم دلی بن جاتی ہے
۔مریضوں سے ہو تو ہمدردی بن جاتی ہے۔
والدین سے ہو تو فرمانبرداری کہلاتی ہے۔

امجد اسلام امجد

محبت زندگی ہے محبت جب دبے پاؤں کسی دل کی طرف آئے بہت آہستگی سے اُس کے دروازے پہ دستک دے تو اُس دستک کے جادُو سے دَرودیوار کی رنگت بس اِک پَل میں بدلتی ہے فضا کی نغمگی اِک اجنبی خوشبو میں ڈھلتی ہے تو پھر کچھ ایسا ہوتا ہے اسی لمحے کی جھلمل میں بہت ہی سرسری سے اِک تعلق کی ہَوا ایک دم کسی آندھی کی صُورت ہر طرف لہرانے لگتی ہے وہ اک لمحہ، زمانوں پر کچھ ایسے پھیل جاتا ہے کہ کوئی حدّ نہیں رہتی یہ کُھلتا ہے محبت زندگی کا ایک رستہ ہی نہیں منزل نشاں بھی ہے یقینوں سے جو افضل ہو یہ اک ایسا گماں بھی ہے یہ ایسا موڑ ہے جس پر سفر خود ناز کرتا ہے اِک ایسا بیج ہے جو زندگی میں"زندگی" تخلیق کرتا ہے اُسے تعمیر کرتا اور نئے مفہوم دیتا ہے بتاتا ہے "محبت زندگی ہے اور جب یہ زندگی دِن رات کی تفریق سے آزاد ہو جائے تو ماہ و سال کی گِنتی کے وہ معنی نہیں رہتے جو اَب تک تھے" سِمٹ جاتے ہیں سب رشتے اک ایسے سلسلے کی خوش نگاہی میں کہ اک دوجے کی آنکھوں میں ہُمکتے خواب بھی ہم دیکھ سکتے ہیں جہاں ہم سانس لیتے ہیں اور جن کی نیلگوں چادر کے دامن میں ہمارے "ہست" کا پیکر سنورتا ہے وہ صدیوں کے پُرانے، آشنا اور اَن بنے منظر کئی رنگوں میں ڈھلتے، خوشبوؤں کی لہر میں تحلیل ہوتے ہیں زمیں چہرہ بدلتی ہے، آسماں تبدیل ہوتے ہیں محبت بھی وفا صورت کسی قانون اور کُلیئے کے سانچے میں نہیں ڈھلتی کہ یہ بھی انگلیوں کے ان نشانوں کی طرح سے ہے کہ جو ہر ہاتھ میں ہو کر بھی آپس میں نہیں ملتے یہ ایسی روشنی ہے جس کے اربوں رُوپ ہیں لیکن جسے دیکھو وہ یکتا ہے نہ کوئی مختلف اِن میں نہ کوئی ایک جیسا ہے محبت استعارا بھی، محبت زندگی بھی ہے ازل کا نور ہے اس میں، اَبد کی تیرگی بھی ہے اِسی میں بھید ہیں سارے، اِسی میں آگہی بھی ہے

 امجد اسلام امجد

یہ عشق و محبت کی رواییؑت بھی عجیب ھے

یہ عشق و محبت کی رواییؑت بھی عجیب ھے
 پانا بھی نہیں ھے اسے کھونا بھی نہیں ھے
 لپٹا ھے تیرے دل سے کسی راز کی صورت 
وہ شخص کہ جس کو تیرا ھونا بھی نہیں ھے
 جس شخص کی خاطر تیرا یہ حال ھے
 محسن اس نے تیرے مر جانے پر رونا بھی نہیں ھے

کاغذ کی کشتی


اگر تم کو محبت تھی تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں  ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا ۔۔۔ درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟
 وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گُلاب اور میں مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا تمھیں بھی یاد تو ہو گا؟
اگر تم کو محبت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟
 نہیں ! محبت تم نے دیکھی ہے، محبت تم نے پائی ہے محبت کی نہیں تم نے

Thursday, August 06, 2015

کہنے کو محبت ہے

کہنے کو محبت ہے 
لیکن اب ایسی محبت کیا کرنی جو نید چرا لے آنکھوں سے 
جو خواب دیکھا کے پھولوں کے تعبیر میں کانٹے دے جائے 
جو غم کی کالی راتوں سے آس کا جگنو سے جائے 
جو خواب سجاتی آنکھوں کوآنسو ہی آنسو دے جائے 
جو مشکل کر دے جینے کو مرنے کو آسان کرے وہ دل 
جو پیار کا مندرہو وہ یادوں کو مہماں کرے 
جو عمر کی نقدی لے جائے اور پھر بھی جھولی خالی ہو 
وہ صورت دل کا روگ بنے جو صورت دیکھی بھالی ہو 
جو قیس بنا دے انساں کو 
جو رانجھا اور فرہاد کرے 
اب ایسی محبت کیا کرنی 
جو خوشیوں کو برباد کرے 
دیکھو محبت کے بارے ہر شخص یہی تو کہتا ہے 
سوچو تو محبت کے اندر اک درد ہمیشہ رہتا ہے
  پھر بھی جو چیز محبت ہوتی ہے،
کب ان باتوں سے ڈرتی ہے،
کب انکے باندھے رکتی ہے،
جس دل میں اسنے بسنا ہو،
بس چپکے سے بس جاتی ہے،
اک بار محبت ہو جائے،
پھر چاہے جینا مشکل ہو،
یا جھولی خالی رہ جائے،
یا آنکھیں آنسو بن جائیں،
پھر اسکی حکومت ہوتی ہے،
آباد کرے، برباد کرے،
اک بار محبت ہو جائے،
کب ان باتوں سے ڈرتی ہے،
کب کسی کے روکے رکتی ہے،
اب ایسی محبت کیا کرنی،؟؟

ایک شفاف آئینہ



جب میں ایک شفاف آئینہ بن کر تمہارے سامنے کھڑا ہویی تو تم مجھے دیر تک غور سے دیکھتے رہے اور تمہیں مجھ میں اپنی صورت نظر آئی۔ پھر تم نے مجھ سے کہا: ’’میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ لیکن درحقیقت تم نے مجھ میں اپنی ذات سے محبت کی تھی  " ۔

~~ خلیل جبران -

آپ کیا کرتے ہیں ؟

آپ کیا کرتے ہیں ؟ " " میں رائیگاں محبتوں کی نشانیاں جمع کرتا ہوں ، دنیا میں محبت کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں ، بے وفائ کو پھیلنے سے روکنا چاہتا ہوں_ " " کیا آپ ایسا سوچتے ہیں کہ دنیا میں محبت کو کوئ خطرہ لاحق ہے ؟" یہ سوچنے کی بات نہیں بلکہ انتہائ تشویش ناک صورت حال ہے کہ دنیا میں محبت بڑی تیزی سے ختم ہورہی ہے _ محبت کے علاوہ بھی تو دنیا میں بہت کچھ ہے "_ " میں سمجھتا ہوں کہ محبت کے بغیر انسان کی روح بنجر ہو جاۓ گی ایسا سوکھا پڑے گا کہ انتظار کی ساری فصل تباہ ہو کر رہ جاۓ گی تنہائ کی مہلک مردہ جانور جیسی ہو جاۓ گی اور تنہا آدمی کے قریب سے آپ ناک پر رومال رکھکر گزریں گے _ اداسی کے رنگوں کو پلنے سے پہلے ہی بے وفائ کی گرد آلود آندھیاں اڑا کر لے جائیں گی من شکستہ خوابوں کا کباڑ خانہ بنکر رہ جاۓ گا_ موت بدصورت ہوجاۓ گی ، کیونکہ محبت کی کمیابی جسمیں موت کا خوبصورت پھول کملا جاتا ہے_ مظہر الاسلام کی کتاب " محبت مردہ پھولوں کی

Response

محبت کی ابتداء بندے سے نہیں ہوتی بلکہ محبت کی ابتداء اللہ سے ہوتی ہے۔ محبت کرنا اصلاً اللہ کی سنت ہے۔ بندہ اللہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے Response کی صورت میں اللہ سے محبت کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ پہلے محب بنتا ہے پھر محبوب بنتا ہے۔ اللہ رب العزت کو دونوں شانیں حاصل ہیں یعنی اللہ Loverبھی ہے اور Beloved بھی ہے۔ وہ محب بھی ہے اور محبوب بھی ہے۔ عاشقان الہٰی اور اولیاء و صلحاء کا دل اللہ کی محبت سے معمور ہے، یہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھ لیں! محبت اللہ سے انہوں نے شروع نہیں کی ہوتی بلکہ یہ عملِ محبت اللہ سے شروع ہوتا ہے۔ پہلے اللہ محبت کرتا ہے اور اللہ کو جس سے محبت ہوجائے اس کی محبت کے Response میں بندہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ ارشاد فرمایا: فَسَوْفَ يَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَه. ترجم: ’’عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے

محّبت ٹھہر جاتی ہے

محّبت ٹھہر جاتی ہے ہم اكثر يه سمجھتے ہیں جسے ہم پیار کرتے ہیں اُسے هم بُهول بیٹھے ہیں
مگر ایسا نہیں ہوتا محّبت دائمی سچ ہے محبت ٹھہر جاتی ہے ہماری بات کے اندر محبت بیٹھ جاتی ہے
ہماری ذات کے اندر مگر یہ کم نہیں ہوتی کسی بھی دکھ کی صورت میں کبھی کوئی ضرورت میں کبھی انجان سے غم میں کبھی لہجے کی ٹھنڈک میں اُداسى كى ضرورت میں کبھی بارش کی صورت میں ہماری آنکھ کے اندر کبھی آبِ رواں بن کر کبھی قطرے کی صورت میں بظاھر ایسا لگتا ہے جسے ہم پیار کرتے ہیں اسے ہم بھول بیٹھے ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا یہ ہر گز کم نہیں ہوتی محبت بیٹھ جاتی ہے ہماری بات کے اندر ہماری ذات کے اندر

محبت کا کانٹا

محبت کا کانٹا جب جسم میں چبھ جائے تو اس کا زہر بدن سے صرف اور صرف آنسوءوں کی صورت میں ہی نکالا جا سکتا ہے
کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ اس زہریلی محبت کا ذائقہ بھی نمکین ہی ہوتا ہوگا۔۔۔ !!

Sunday, August 02, 2015

چہرے سے مسکراہٹ

 چہرے سے مسکراہٹ چھن کر کہنا کے مسکرو
پیروں کو زنجیر سے بندہ کر کہنا دوڑ  لگاو
زبان پر تالا لگا کر کہنا بات کرو
دل کو قید کر کے کہنا دل کی بات کرو
سوچوں پر پابندی لگا کر کہنا کس سوچ میں ہو  _ _ _  !

یہ  کیسی قید ہے ، یہ  کیسی زندگی ہے
جس میں سانس چل رہی ہے ، پر زندگی نہیں -
جس میں دل ہیں مگر آرزو نہیں ،
زندگی ہے مگر زندہ نہیں
 دھڑکن ہے مگر دل نہیں




یہ زندگی بھی عجیب شے ہے

یہ زندگی بھی عجیب شے ہے
کے بس ڈھلتی ہی رہتی ہے
کسی کے ملنے یا بکھر جانے سے
اسے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے

یہ بس چلتی رہتی ہے
کسی کے ملنے یہ بچھڑنے سے
اس کو کچھ فرق نہیں پڑتا
یہ بس چلتی ہی جاتی ہے

نہ جانے کیسی تلاش میں
کس منزل کی جستجو میں
اندشوں کی ان دیکھی آگ میں جلتی ہے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے گواں دیتی  ہے سب خوشیئں

پھر خود ہی ہاتھ ملتی ہے
ٹھوکر کھا کر گرتی ہے
گر کر پھر سے سمبھلتی ہے
مگر اس کی روانی میں

کبھی کوئی فرق نہیں آتا
یا بس چلتی ہی رہتی ہے