Sunday, May 11, 2014

خواب ٹوٹ جاتے ہیں

 خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی ہاتھ جھوٹ جاتے ہیں
دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سی
شک کی زرد ٹہنی پر پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں' غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا
دشتِ بے یقینی میں راستہ نہیں ملتا

خاموشی کے کے وقفوں میں
بات ٹوٹ جاتی ہےاور سرا نہیں ملتا
معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی
لذتِ پزیرائی' پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بےرخی کے گارے سے،بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے اینٹ جڑنے لگتی ہے

خاک اڑنے لگتی ہے
خوب ٹوٹ جاتے ہیں
واہموں کے سائے سے'عمر بھر کی محنت کو
پل میں لُوٹ جاتے ہیں

اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment