Sunday, May 11, 2014

باہر کبھی تو جھانک کے کھڑکی سے دیکھتے،


اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون!
کس سے مکالمہ ہے ! پسِ گفتگو ہے کون!

سایہ اگر ہے وہ تو ہے اُس کا بدن کہاں؟
مرکز اگر ہوں میں تو مرے چار سو ہے کون!

ہر شے کی ماہیت پہ جو کرتا ہے تو سوال
تجھ سے اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تو ہے کون!

اشکوں میں جھلملاتا ہوا کس کا عکس ہے
تاروں کی رہگزر میں یہ ماہ رو ہے کون!

باہر کبھی تو جھانک کے کھڑکی سے دیکھتے،
کس کو پکارتا ہوا یہ کو بہ کو ہے کون!

آنکھوں میں رات آ گئی لیکن نہیں کھلا
میں کس کا مدعا ہوں؟ مری جستجو ہے کون!

کس کی نگاہِ لُطف نے موسم بدل دئیے
فصلِ خزاں کی راہ میں یہ مُشکبو ہے کون!

بادل کی اوٹ سے کبھی تاروں کی آڑ سے
چُھپ چُھپ کے دیکھتا ہوا یہ حیلہ جُو ہے کون!

تارے ہیں آسماں میں جیسے زمیں پہ لوگ
ہر چند ایک سے ہیں مگر ہو بہو ہے کون!

ہونا تو چاہیے کہ یہ میرا ہی عکس ہو!
لیکن یہ آئینے میں مرے روبرو ہے کون!

اس بے کنار پھیلی ہوئی کائنات میں
کس کو خبر ہے کون ہوں میں! اور تُو ہے کون

سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجد عدُو ہے کون!

No comments:

Post a Comment