Tuesday, May 06, 2014

شیشے کا سمندر ، پانی کی دیواریں

 
شیشے کا سمندر ، پانی  کی  دیواریں
اس دونیا میں جو بھی گیا وہ تو گیا

برف کی ریتوں پہ شہروں کا ٹھکانہ
گرم صحراؤں میں نرمیوں کا فسانہ

 یادوں کا  آئینہ ٹوٹتا ہے جہاں
سچ کی پرچھایاں ہر جگا آتی ہیں نظر
 
سونے کے ہیں بادل ، پتھروں کی بارش
 مایا ہے بھرم کی یہ محبت کی دونیا
اس دونیا میں جو بھی ہی وہ تو گیا
 
دل کی اس دونیا میں ، سرحدیں ہوتی نہیں
درد بھری آنکھوں میں ، راحتیں ہوتی نہیں
 
جتنے احساس ہیں ، اد بوجھی پیاس ہے
زندگی کا  فلسفہ ، دھوپ کی ہوائیں
، کانٹوں کے بگچے
 مایا ہے بھرم کی یہ محبت کی دونیا 
اس دونیا میں جو بھی ہی وہ تو گیا
 

No comments:

Post a Comment