دِن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں
کبھی منظر صاف نہیں ہوتے
کبھی سورج بات نہیں کرتا
کبھی تارے آنکھ بدلتے ہیں
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے
کبھی رستے آگے چلتے ہیں
کبھی آسیں توڑ نہیں چڑھتیں
کبھی خدشے پورے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں
کبھی خواب ادھورے ہوتے ہیں
یہ سب تو صحیح ہے لیکن اِس
آشوب کے منظر نامے میں
(دِن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں)
کچھ سایہ کرتی آنکھوں کے پیماں تو دکھائی دیتے ہیں
ہاتھوں سے اگرچہ دور سہی ، امکاں تو دکھائی دیتے ہیں
ہاں ریت کے اس دریا کے اُدھر
اِک پیڑوں والی بستی کے ، عنواں تو دکھائی دیتے ہیں
منزل سے کوسوں دور سہی
پُر درد سہی ، رنجور سہی
زخموں سے مسافر چُور سہی
پر کِس سے کہیں اے جانِ جہاں
کچھ ایسے گھاؤ بھی ہوتے ہیں ، جنہیں زخمی آپ نہیں دھوتے
بِن روئے ہوئے آنسو کی طرح
سینے میں چُھپا کر رکھتے ہیں
اور ساری عمر نہیں روتے
نیندیں بھی مہیا ہوتی ہیں ، سپنے بھی دور نہیں ہوتے
کیوں پھر بھی جاگتے رہتے ہیں
کیوں ساری رات نہیں سوتے
اب کِس سے کہیں اے جانِ وفا ، یہ اہلِ وفا
کِس آگ میں جلتے رہتے ہیں
کیوں بُجھ کر راکھ نہیں ہوتے
No comments:
Post a Comment