Tuesday, July 30, 2013

یتیم



اللہ نے یتیم کو کھانا کھلانے کا حکم دیا ہے۔ ہم یہ نہیں پوچھ سکتے کہ اللہ نے اُسے یتیم ہی کیوں کیا ہے۔ اللہ اُسے خود ہی کیوں نہیں کھانا عطا کرتا۔ شکوک و شبہات کی دنیا میں سوال ابھرتے ہیں۔ یہ کیوں ‘ ایسا کیوں نہیں ‘ ایسے ہونا چاہیے تھا۔
یقین سے محروم انسان صرف سوال ہی کرتا رہتا ہے کہ اللہ نے یہ کیوں کیا ‘ ایسے کیوں نہیں۔ صاحبِ یقین یتیم کو کھانا کھلاتا ہے اور اسے اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔ عقیدے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا‘ اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کا ثبوت اپنی ہی پیشانی میں ذوقِ سجدہ کی شکل میں ملتا ہے۔ اگر ذوقِ جبیں سائی نہ ہو ‘ تو عقیدوں کے محل مسمار ہو جاتے ہیں

ماضی اختیار سے باہر ہوتا ہے

ماضی اختیار سے باہر ہوتا ہے، مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے، حال کا لمحہ انتا اہم ہے کہ اس کے ذریعے ماضی بھی درست ہو سکتا ہے اور مستقبل بھی۔ گنہگار ماضی ، حال کی توبہ کر کے نیک بن جاتا ہے،آنے والے اندیشے حال میں توبہ کرنے سے بہتے ہو سکتے ہیں۔

محبت انسان کو ہمیشہ سفر میں رکھتی ہے

"محبت انسان کو ہمیشہ سفر میں رکھتی ہے، ایک پل کا چین بھی اگر آپ کی رگوں کے نام کر دیا جائے تو آپ کا اپنا اور اپنے محبوب کا نام بھول جائے گا۔ اور ایسے میں پہلی محبت کی موت ہوتی ہے۔ باقی کی محبتیں اپنے انجام سے خوفزدہ، محبت مسلسل فعل ہے اور مسلسل زندگی اور موت۔
اک لمحے کو دہرانا بھی کسی سائے میں بیٹھ کر سستانا بھی، اور آبلے گننا بھی یا صرف اپنے لیے سانس لینا بھی جرم ہے۔"

اشفاق احمد

دل درد کا ٹکڑا ہے


دل درد کا ٹکڑا ہے
پتھر کی ڈَلی سی ہے
اِک اَندھا کنواں ہے یا
اِک بند گلی سی ہے

اِک چھوٹا سا لمحہ ہے
جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں
یہ بھسم نہیں ہوتا

Monday, July 29, 2013

زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آجاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔

زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آجاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتاہے۔ کوئی ماں باپ،کوئی بہن بھائی کوئی دوست نہیں ہوتا۔

 پھر ہمیں پتا چلتاہے کہ ہمارے پاؤں کے نیچے نہ زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان،بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلامیں تھامے ہوئے ہے۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک زرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔
 پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یانہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے ۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیزپر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

تبدیلی

دھمکیوں سے لوگ کبھی اچھے نہیں بنتے‘ تبدیلی محبت کی زمین میں اُگتی ہے۔۔ دل کی آمادگی کے ساتھ پھل پھول دیتی ہے۔۔ انسان کمپیوٹر کے کی بورڈ نہیں ہوتے کہ جب جو جی چاہا ٹائپ کرلیا۔۔۔۔

کمپیوٹر

دھمکیوں سے لوگ کبھی اچھے نہیں بنتے‘ تبدیلی محبت کی زمین میں اُگتی ہے۔۔ دل کی آمادگی کے ساتھ پھل پھول دیتی ہے۔۔ انسان کمپیوٹر کے کی بورڈ نہیں ہوتے کہ جب جو جی چاہا ٹائپ کرلیا۔۔۔۔

گلستان

"عظیم لوگ وہ ہوتے ہیں جو درد کے صحراؤں میں بیٹھ کر دنیا کو گلستان کی خبر دیتے ہیں۔

زندگی کا ہر امتحان

زندگی کا ہر امتحان انسان ذہانت اور محنت سے پاس نہیں کر سکتا، بعض امتحانوں کے لیے قسمت کے علاوہ اور کوئی چیز درکار نہیں ہوتی۔

فاصلے

فاصلے مٹا نے میں ، عمر بیت جاتی ہے ،  فاصلے نہیں مٹتے ،

ﺟﺴﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ.. ﺍُﺳﮯ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﺭ ﮐﯿﺴﺎ


ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ
-
ﮐﺴﯽ ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ
ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ
ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺁﺷْﻨﺎﺋﯽ ﮐﻮ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﺎﺹ ﻟﮑﮫ ﮈﺍﻟﻮ
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻭ ، ﭼﺎﺭ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ
ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺳﺎ ﺗﻢ ﺩﻟﮑﺶ
ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻟﮑﮫ ﮈﺍﻟﻮ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ
-
ﺳﻨﻮ ﺍﮮ ﻣﻮﻡ ﮐﯽ ﮔُﮍﯾﺎ
ﺍﺏ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﻨﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﻧﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻗﺪﻡ ﺩﻭ ، ﭼﺎﺭ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﺳﻔﺮ ﺳﺎﻧﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺗﻮ ﺍﻥ ﺑﮯ ﮐﺎﺭ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﭘﮧ
ﺳﻨﻮ ! ﺭﻭﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﺭ ﮐﯿﺴﺎ
ﺟﺴﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ

 !ﺍُﺳﮯ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﺭ ﮐﯿﺴﺎ

Saturday, July 06, 2013

سلطان سبکتگین

Abu Mansoor Sabuktigin, father of the famous Muslim General Sultan Mehmood Ghaznavi. He was the founder of the Ghaznavi Empire in Afghanistan in the 10th century.

Sultan Sabuktagin was a former Turkish slave and later on he was married with the daughter of Sultan Alptigin who seized Ghazna the present
Ghazni Province in Afghanistan.