Monday, May 26, 2014

trust , honor, selfrespact , quality ,loyalty

کوئی بھی رشتہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کیا جایے تو آگے مسائل گھیر لاتے ہیں اور زندگی مشکل ہو جاتی ہے  - اور اگر کوئی رشتہ 
trust , honor, selfrespact , quality ,loyalty
 base  کی
پرتو  قائم رہتا ہے

زندگی آسان


اگر انسان ان چیزوں پر خوش  ہونا سیکھ لے جو اس نے دی ہیں
اور ان چیزوں کی تلاش چھوڑ دیں جو لا حاصل ہیں تو زندگی آسان ہو جاتی ہے

Wednesday, May 21, 2014

right to judge

I don’t think anyone in this world has a right to judge anyone. I can’t say who is bad or good.

ساتھ دل کے چلے دل کو نہیں روکا ہم نے

 ساتھ دل کے چلے دل کو نہیں روکا ہم نے
جو نہ اپنا  تھا اسے ٹوٹ کے چاہا ہم نے

ایک دھوکے میں کٹی عمر ہماری سا ری
کیا بتایں کیسے پایا کیسے کھویا ہم نے
جینے کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہی

Tuesday, May 20, 2014

Asma Qureshi - Sr.Software Developer

Its Asma Qureshi, Working in DUBAI.
Senior/lead level software / Web developer with 9 years experience developing applications / Webs with broad set of technologies and domains. Love solving hard problems, fixing impossible bugs and learning new things.

Objective: Work that is challenging, solve real problems and deliver value .I have keen interest to make easl UI Aps

Computing skills: Programming experience with C#, VB.NET, ASP.NET ,JavaScript, PHP, SQL Server 2008. 2010 ,  Crystal Report,  Development experience with Web, Windows platforms. Expertise in system architecture, design and development using object oriented design principles and relational database model.

Technical Tools: Visual Studio, HTML/HTML5, CSS, .NET Framework, JQury, ASP.NET, ASP.NET MVC, Windows Forms, WPF, Silverlight, WCF, XML, web services in asp.net , Microsoft SQL Server, IIS.

Thursday, May 15, 2014

محبت میں” اب”، ”اور ”پھر نہیں ہوتے

محبت میں” اب”، ”اور ”پھر نہیں ہوتے اور نہ ہی ”یہاں”،” وہاں” ہی ہوتے ہیں۔ سبھی موسم محبت کے موسم ہیں۔ سب ہی جگھیں ”محبت ” کا موزوں مسکن ہیں ۔”محبت ” کوئی رکاوٹیں گوارہ نہیں کرتی، جس محبت کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہو، سمجھ لو کہ وہ ابھی ”محبت” کہلائے جانے کی مستحق نہیں۔

Wednesday, May 14, 2014

اعتماد بدگومان


 اعتماد

بدگومان
 
Give me / tell me something about above , as what you think.

جو بھی دل میں ایے

Monday, May 12, 2014

-مشتاق-عاجز


باتوں باتوں میں عمر بیت گئی
ہاں مگر ایک اَن کہی اے دوست!

===========
عمرِ عزیز بھول بھلیّاں میں کٹ گئی
جو بھی ملا وہ ایک پہیلی سُنا گیا



-مشتاق-عاجز

مرے غم کی عمر دراز کر

میرے غم کی عمر دراز کر  ، میرے دردِ دل کو دوام دے ​
میں دعا بدست ہوں اے خدا ! کوئی خاص شے مجھے عام دے ​

 مشتاق عاجز

شہر بے مثال

ہر انسان اپنی ذات میں ایک شہر بے مثال ہوتا ہے۔ جس کی اپنی تاریخ ہوتی ہے، جغرافیہ ہوتا ہے، ثقافت ہوتی ہے، اپنے موسم ہوتے ہیں، اقدار وروایات اور تہذیبی تسلسل ہوتا ہے-
 جن سے اس کی شخصیت کے خدوخال کا تعین بھی ہوتا ہے اورکیفیات کے بدلتے رہنے سے زندگی کا تحرک بھی مجسم ہوتا ہے۔

 

کبھی خوشیاں بھی اتنی عجیب ہوتی ہیں

کبھی خوشیاں بھی اتنی عجیب ہوتی ہیں - کے جب قریب آتی ہیں - تو ہاتوں سے پھیصل جاتی ہیں جسے ہاتھوں سے ریت -

سوج پہ دستک دینا آساں نہیں

لمحہ لمحہ کھنچتا جایے کسی کی جانب دل میرا

جوڑ دیا تقدیر نے  شاید اس سا مستقبل میرا

جوڑ کہ بندھن کٹ جانا

بڑھ کر پیچھے ہٹ جانا آساں نہیں

سورج پہ دستک دینا آساں نہیں

بڑھ  کہ اپنا ہاتھ جلا لینا آساں نہیں

کھلنا گرم شعاؤں سے آساں نہیں

پل پل آواز سی جو سونی دیتی ہے

اس آواز میں دھوندہلی سی شکل دکھائی دتی ہے

لیکین اس کو چھو لینا

شولوں سا خشبو لینا اسان نہیں

چل کر اپنے پاؤں سے

کھلنا گرم شواؤں سے آساں نہیں

شولوں سے خوشبو لینا آساں نہیں


ہر چیز کی قنمت ہوتی ہے

ہر چیز کی قنمت ہوتی ہے ، کبھی بھی کوئی چیز مفت میں نہیں ملتی -
کبھی کبھی کچھ چیزوں کے لیے بہت بہاری قیمت ادا کرنی پر جاتی ہے

ممکنات

زندگی نہ ممکنات ، وقت کا نام ہے

کمپرومائز کی توقع

کمپرومائز کی توقع معاشرہ صرف عورت سے ہی کرتا ہے -
اور ہر معملے میں یا ہی چاہتا ہے کے سرف عورت ہی جھوکے -
عورت کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہوتا -
وہ کرے بھی تو کیا کرے 
 

Sunday, May 11, 2014

خواب ٹوٹ جاتے ہیں

 خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی ہاتھ جھوٹ جاتے ہیں
دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سی
شک کی زرد ٹہنی پر پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں' غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا
دشتِ بے یقینی میں راستہ نہیں ملتا

خاموشی کے کے وقفوں میں
بات ٹوٹ جاتی ہےاور سرا نہیں ملتا
معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی
لذتِ پزیرائی' پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بےرخی کے گارے سے،بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے اینٹ جڑنے لگتی ہے

خاک اڑنے لگتی ہے
خوب ٹوٹ جاتے ہیں
واہموں کے سائے سے'عمر بھر کی محنت کو
پل میں لُوٹ جاتے ہیں

اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں

امجد اسلام امجد

اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے

 
اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے 
 
امجد اسلام امجد

باہر کبھی تو جھانک کے کھڑکی سے دیکھتے،


اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون!
کس سے مکالمہ ہے ! پسِ گفتگو ہے کون!

سایہ اگر ہے وہ تو ہے اُس کا بدن کہاں؟
مرکز اگر ہوں میں تو مرے چار سو ہے کون!

ہر شے کی ماہیت پہ جو کرتا ہے تو سوال
تجھ سے اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تو ہے کون!

اشکوں میں جھلملاتا ہوا کس کا عکس ہے
تاروں کی رہگزر میں یہ ماہ رو ہے کون!

باہر کبھی تو جھانک کے کھڑکی سے دیکھتے،
کس کو پکارتا ہوا یہ کو بہ کو ہے کون!

آنکھوں میں رات آ گئی لیکن نہیں کھلا
میں کس کا مدعا ہوں؟ مری جستجو ہے کون!

کس کی نگاہِ لُطف نے موسم بدل دئیے
فصلِ خزاں کی راہ میں یہ مُشکبو ہے کون!

بادل کی اوٹ سے کبھی تاروں کی آڑ سے
چُھپ چُھپ کے دیکھتا ہوا یہ حیلہ جُو ہے کون!

تارے ہیں آسماں میں جیسے زمیں پہ لوگ
ہر چند ایک سے ہیں مگر ہو بہو ہے کون!

ہونا تو چاہیے کہ یہ میرا ہی عکس ہو!
لیکن یہ آئینے میں مرے روبرو ہے کون!

اس بے کنار پھیلی ہوئی کائنات میں
کس کو خبر ہے کون ہوں میں! اور تُو ہے کون

سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجد عدُو ہے کون!

احساس پہ لگتا ہے ہر شام نیا تالہ

وہ چاند کہ روشن تھا سینوں میں نگاہوں میں
لگتا ہے اداسی کا اک بڑھتا ہوا ہالہ
پوشاکِ تمنا کو
آزادی کے خلعت کو
افسوس کہ یاروں نے
الجھے ہوئے دھاگوں کا اک ڈھیر بنا ڈالا
وہ شور ہے لمحوں کا، وہ گھور اندھیرا ہے
تصویر نہیں بنتی، آواز نہیں آتی
کچھ زور نہیں چلتا، کچھ پیش نہیں جاتی
اظہار کو ڈستی ہے ہر روز نئی اُلجھن

احساس پہ لگتا ہے ہر شام نیا تالہ
ہے کوئی دل بینا، ہے کوئی نظر والا

ہم لوگ نہ تھے ایسے

ہم لوگ نہ تھے ایسے
ہیں جیسے نظر آتے
اے وقت گواہی دے
ہم لوگ نہ تھے ایسے
یہ شہر نہ تھا ایسا
یہ روگ نہ تھے ایسے
دیوار نہ تھے رستے
زندان نہ تھی بستی
آزار نہ تھے رشتے
خلجان نہ تھی ہستی
یوں موت نہ تھی سستی
یہ آج جو صورت ہے
حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم
دن رات نہ تھے ایسے
تفریق نہ تھی ایسی
سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے
ہم لوگ نہ تھے ایسے

کرو، جو بات کرنی ہے


کرو، جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پہ بیٹھے، کہ دنیا
بس تمہیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لئے رُکنا نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تُم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بِنا دیکھے، بِنا ٹھہرے
جِسے تُم وقت کہتے ہو
دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو، جو بات کرنی ہے

Thursday, May 08, 2014

گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا -

گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا -
 اور اگر آ بھی جاے تو پہلے کی ترھا نہیں ہوتا -

Wednesday, May 07, 2014

Rain, Rain, Rain…….and Rain!!


ساتھ دل کے چلے دل کو نہیں روکا ہم نے


ساتھ دل کے چلے دل کو نہیں روکا ہم نے
جو نہ اپنا تھا اسے ٹوٹ کر چاہا ہم نے


ایک دھوکے میں‌ کٹی عمر ہماری ساری
کیا بتایئں کیسے کھویا کسے پایا ہم نے

Tuesday, May 06, 2014

شیشے کا سمندر ، پانی کی دیواریں

 
شیشے کا سمندر ، پانی  کی  دیواریں
اس دونیا میں جو بھی گیا وہ تو گیا

برف کی ریتوں پہ شہروں کا ٹھکانہ
گرم صحراؤں میں نرمیوں کا فسانہ

 یادوں کا  آئینہ ٹوٹتا ہے جہاں
سچ کی پرچھایاں ہر جگا آتی ہیں نظر
 
سونے کے ہیں بادل ، پتھروں کی بارش
 مایا ہے بھرم کی یہ محبت کی دونیا
اس دونیا میں جو بھی ہی وہ تو گیا
 
دل کی اس دونیا میں ، سرحدیں ہوتی نہیں
درد بھری آنکھوں میں ، راحتیں ہوتی نہیں
 
جتنے احساس ہیں ، اد بوجھی پیاس ہے
زندگی کا  فلسفہ ، دھوپ کی ہوائیں
، کانٹوں کے بگچے
 مایا ہے بھرم کی یہ محبت کی دونیا 
اس دونیا میں جو بھی ہی وہ تو گیا
 

Monday, May 05, 2014

عقل کی چھتری

"محبت کی بارش میں عقل کی چھتری ساتھ ہو تو انسان ہر طوفانی بارش  کا سامنا اعتماد سے کرسکتا ہے"

دل ،دریا سمندر

  ہم اپنے بننے والے نئے رشتوں میں محبت کی جھلک ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں اورتھکن ہماری رگوں میں یوں اترتی چلی جاتی ہے کہ سیراب ہو کر بھی تشنگی کا احساس کم نہیں ہوتا۔ شروع میں بہت محسوس ہوا پھر سمجھ آیا کہ محبت ایسی چیز نہیں کہ جسے دینا ہمارے اختیار میں ہو ۔ یہ ہمارا وہ حق ہے جسے مانگنے کا ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ 

محبت صرف ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی ۔ یہ لین دین کا رشتہ  ہے ہی نہیں اورزندگی میں جو نئے رشتے بنتے ہیں وہ صرف لین دین ہی کے بنتے ہیں بلکہ صرف دینے کے جتنا دیتے جاؤ کم ہے اور بدلے میں ذرہ بھی مل جائے تو بہت ہے ورنہ بیگار ہی زندگی کہانی  کا حاصل ٹھہرتی ہے

دل ،دریا سمندر

فقط بیس روپے

ہم الله تعالیٰ کی جس رحمت اور جس کرم کو قبلوں اور کعبوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں، الله کی وہ رحمت اور وہ کرم اس کے بندوں کی چھوٹی چھوٹی امیدوں اور چھوٹی چھوٹی حسرتوں میں چھپی رہتی ہے ۔ مجھے محسوس ہوا خدا تک پہنچنے کے تمام راستے اس کی مظلوم، بے بس اور نادار مخلوق کے دل سے گزرتےہیں ۔ اور یہ راستے کبھی فقط بیس روپے اور کبھی پانی کے ایک گلاس کے عوض کھل جاتے ہیں- مجھے محسوس ہوا خدا ہمیشہ چھوٹے لوگوں کے دلوں میں رہتا ہےاور جب تک ہم ان لوگوں کے دلوں پر دستک نہیں دیتے اور جب تک ان کا لوگوں کا دل ہمارے لئے نہیں کھلتا اس وقت تک ہم الله تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے -

اعتبار اور اعتماد کی دولت

عورت کی یہی ٹریجڈی ھے ، وہ مرد کو اعتبار اور اعتماد کی دولت سے نوازتی رھتی ھے ،مگر اپنے اندر وہ نہایت کمزور اور بے یقین ھوتی ھے ،دراصل عورت کے اندر جو اعتماد ھوتا ھے نا وہ اسے کام میں لانے کا قرینہ نہیں جانتی ،اسی لیئے وہ اپنا سارا اعتماد مرد کو بخش کر اس سے توقع رکھتی ھے کہ وہ اس اعتماد کے سہارے عورت کو تحفظ فراہم کرے


ناول : محبتیں ادھوری سی

محمد ظہیر بدر

Saturday, May 03, 2014

Unending love

I seem to have loved you in numberless forms, numberless times…
In life after life, in age after age, forever.
My spellbound heart has made and remade the necklace of songs,
That you take as a gift, wear round your neck in your many forms,
In life after life, in age after age, forever.

Whenever I hear old chronicles of love, it’s age old pain,
It’s ancient tale of being apart or together.
As I stare on and on into the past, in the end you emerge,
Clad in the light of a pole-star, piercing the darkness of time.
You become an image of what is remembered forever.

You and I have floated here on the stream that brings from the fount.
At the heart of time, love of one for another.
We have played along side millions of lovers,
Shared in the same shy sweetness of meeting,
the distressful tears of farewell,
Old love but in shapes that renew and renew forever.

Today it is heaped at your feet, it has found its end in you
The love of all man’s days both past and forever:
Universal joy, universal sorrow, universal life.
The memories of all loves merging with this one love of ours -
And the songs of every poet past and forever.

~by Rabindranath Tagore