Saturday, July 11, 2015

ایک شفاف آئینہ

تمنا کے سبھی سلسلے عجیب ہیں محبت در محبت دائرے ہیں رابطے ہیں کسی الہام کی صورت اترتی روشنی ہے بے خودی ہے تمنا ایک کچہ راستہ تم سے میرا پہلا اور آخری واسطہ روایت در روایت بے بسی ہے بے کلی ہے جو مجھے تم تک لے جاے وہ چال محبت نے چلی ہے تمنا وہ جو ہم تم سے کہیں محبت وہ جو تم ہم سے کرو ہاں مگر تمنا کے سبھی سلسلے عجیب ہیں۔
~~~~~~

Thursday, July 09, 2015

محبت گم نہیں ہوتی



محبت گم نہیں ہوتی --- محبت گم نہیں ہوتی یہ بس شکلیں بدلتی ہے کبھی غیروں سے ہوتی ہے کبھی
اپنوں سے ہوتی ہے کبھی مانوس چہروں سے کبی سپنوں سے ہوتی ہے کبھی رنگین خوابوں سے کبھی بیکل خیالوں سے کبھی محبوب کے سارے حوالوں سے کبھی لیلیٰ ، کبھی شیریں ، کبھی سسی کی مورت میں کبھی مجنوں ، کبھی فرہاد اور کبھی پنوں کی صورت میں کبھی تو ساتھہ چلتی ہے کبھی رستے بدلتی ہے کبھی دل میں سماتی ہے کبھی ہر سو یکایک پھیل جاتی ہے یہ ہر موسم ہر اک لمحہ ہمارے گرد ہی موجود رہتی ہے کبھی پل میں سمٹتی ہے کبھی صدیوں میں ڈھلتی ہے محبت گم نھیں ہوتی "یہ بس شکلیں بدلتی ہے

چپکے چپکے جل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے

چپکے چپکے جل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
 پُروا سنگ نکل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے

آنکھوں آنکھوں چل پڑتے ہيں تاروں کی قنديل لئے
چاند کے ساتھ ہی ڈھل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے

 دل ميں پھول کھلا ديتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
 آگ ميں راگ جگاتے ديتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
پانی بيچ بتاشہ صورت خود تو گھلتے رہتے

ہيں سم کو شہد بنا ديتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
خواب خوشی کے بو جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے

 زخم دلوں کے دھو جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
تتلی تتلی لہراتے ہيں پھولوں کی اُمید ليے اک دن خوشبو ہو جاتے
ہيں لوگ محبت کرنے والے بن جاتے ہيں نقش وفا کا لوگ محبت کرنے والے

 جھونکا ہيں بے چين ہوا کا لوگ محبت کرنے والے
جلی ہوئی دھرتی پہ جيسے بادل گھر کے آئيں بستی پر ہيں فضل خدا کا لوگ محبت کرنے والے

کچھ خواب ہیں

کچھ خواب ہیں جن کو لکھنا ہے
 تعبیر کی صورت دینی ہے
 کچھ لوگ ہیں اجڑے دل والے
 جنہیں اپنی محبت دینی ہے
 کچھ پھول ہیں جن کو چننا ہے
اور ہار کی صورت دینی ہے
کچھ اپنی نیند باقی ہے جسے بانٹنا ہے
 کچھ لوگوں میں ان کو راحت دینی ہے
 اے عمر رواں!
آہستہ چل ابھی خاصا قرض چکانا ہے

میں مارا جاؤں گا

 میں مارا جاؤں گا

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
 میں کم شناس مروت میں مارا جاؤں گا

ہلے کسی فسانے میں پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا
میں ورغلایا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا
مجھے بتایا ہوا ہے میری چھٹی حس نے میں اپنے عہدِ خلافت میں مارا جاؤں گا
میرا یہ خون میرے دشمنوں کے سر ہوگا میں دوستوں کی حراست میں مارا جاؤں گا
 یہاں کمان اٹھانا میری ضرورت ہے وگرنہ میں بھی شرافت میں مارا جاؤں گا
 فراغ میرے لۓ موت کی علامت ہے میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاؤں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
 بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا
 نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا میں اب کی بار محبت میں مارا جاؤں گا

Tuesday, July 07, 2015

محبت اوس کی صورت

محبت محبت اوس کی صورت پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے گلوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی، مسکراتی جگمگاتی ہے محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے کسی فردوس کی صورت محبت اوس کی صورت محبت ابر کی صورت دلوں کی سر زمیں پہ گھر کے آتی ہے اور برستی ہے چمن کا ذرہ زرہ جھومتا ہے مسکراتا ہے ازل کی بے نمو مٹی میں سبزہ سر اُٹھاتا ہے محبت اُن کو بھی آباد اور شاداب کرتی ہے جو دل ہیں قبر کی صورت محبت ابر کی صورت محبت آگ کی صورت بجھے سینوں میں جلتی ہے تودل بیدار ہوتے ہیں محبت کی تپش میں کچھ عجب اسرار ہوتے ہیں کہ جتنا یہ بھڑکتی ہے عروسِ جاں مہکتی ہے دلوں کے ساحلوں پہ جمع ہوتی اور بکھرتی ہے محبت جھاگ کی صورت محبت آگ کی صورت محبت خواب کی صورت نگاہوں میں اُترتی ہے کسی مہتاب کی صورت ستارے آرزو کے اس طرح سے جگمگاتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی دلِ بے تاب کی صورت محبت کے شجر پرخواب کے پنچھی اُترتے ہیں تو شاخیں جاگ اُٹھتی ہیں تھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیں تو کب کی منتظر آنکھوں میں شمعیں جاگ اُٹھتی ہیں محبت ان میں جلتی ہے چراغِ آب کی صورت محبت خواب کی صورت محبت درد کی صورت گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہے شبانِ ہجر میںروشن ستارہ بن کے رہتی ہے منڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھر اتی ہیں نگر میں نا امیدی کی ہوئیں سنسناتی ہیں گلی جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتا دکھے دل کے لئے جب کوئی دھوکا نہیں رہتا غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو یہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہے کسی ہمدرد کی صورت گزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سے فضا میں تیرتی ہے دیر تک یہ گرد کی صورت محبت درد کی صورت

محبت شام ھے

محبت شام ھے اور شام نے ڈھلنا ھے ہر صورت مقدر میں جو لکھا ھے اسے ملنا ھے ہر صورت کسی کی یاد میں رہنا ، کسی کو یاد میں رکھنا وفا کا سلسلہ ھے یہ اسے چلنا ھے ہر صورت

عورت کی قسمت

عورت کی قسمت کا انحصار اس کے، حسن سیرت تعلیم ، حسن صورت , سمجھداری یا محبت پر نہیں بلکہ اس کی زندگی میں شامل ہونے والے مرد پر ہوتا ہے۔۔!!

Saturday, July 04, 2015

دِن رات کے آنے جانے میں


دِن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں
کبھی منظر صاف نہیں ہوتے
کبھی سورج بات نہیں کرتا
کبھی تارے آنکھ بدلتے ہیں
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے
کبھی رستے آگے چلتے ہیں
کبھی آسیں توڑ نہیں چڑھتیں
کبھی خدشے پورے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں
کبھی خواب ادھورے ہوتے ہیں
یہ سب تو صحیح ہے لیکن اِس
آشوب کے منظر نامے میں
(دِن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں)
کچھ سایہ کرتی آنکھوں کے پیماں تو دکھائی دیتے ہیں
ہاتھوں سے اگرچہ دور سہی ، امکاں تو دکھائی دیتے ہیں
ہاں ریت کے اس دریا کے اُدھر
اِک پیڑوں والی بستی کے ، عنواں تو دکھائی دیتے ہیں
منزل سے کوسوں دور سہی
پُر درد سہی ، رنجور سہی
زخموں سے مسافر چُور سہی
پر کِس سے کہیں اے جانِ جہاں
کچھ ایسے گھاؤ بھی ہوتے ہیں ، جنہیں زخمی آپ نہیں دھوتے
بِن روئے ہوئے آنسو کی طرح
سینے میں چُھپا کر رکھتے ہیں
اور ساری عمر نہیں روتے
نیندیں بھی مہیا ہوتی ہیں ، سپنے بھی دور نہیں ہوتے
کیوں پھر بھی جاگتے رہتے ہیں
کیوں ساری رات نہیں سوتے
اب کِس سے کہیں اے جانِ وفا ، یہ اہلِ وفا
کِس آگ میں جلتے رہتے ہیں
کیوں بُجھ کر راکھ نہیں ہوتے

 

Wednesday, July 01, 2015

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے

یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس موڑ پر ڈوب جائیں
عجب دل کی بستی عجب دل کی وادی
ہر اک موڑ موسم نئی خواہشوں کا
لگائے ہیں ہم نے بھی سپنوں کے پودے
مگر کیا بھروسہ یہاں بارشوں کا
مرادوں کی منزل کے سپنوں میں کھوئے
محبت کی راہوں پہ ہم چل پڑے تھے
ذرا دور چل کے جب آنکھیں کھلیں تو
کڑی دھوپ میں ہم اکیلے کھڑے تھے
جنہیں دل سے چاہا جنہیں دل سے پوجا
نظر آ رہے ہیں وہی اجنبی سے
روایت ہے شاید یہ صدیوں پرانی
شکایت نہیں ہے کوئی زندگی سے