Wednesday, February 19, 2014

شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوایٔں مجھے نہ دو



شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوایٔں مجھے نہ دو
میں کب کا جا چکا ہوں صدایٔں مجھے نہ دو
جو زہر پی چکا ہوں، تمہی نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعایٔں مجھے نہ دو
ایسا نہ ہو کبھی کہ، پلٹ کر نہ آ سکوں
ہر بار دور جا کے صدایٔں مجھے نہ دو
کب مجھ کو عترافِ محبٌت نہ تھا فراز
کب میں نے یہ کہا تھا سزایٔں مجھے نہ دو

احمد فراز

سارے خواب پورے نہیں ہوتے


سارے خواب پورے نہیں ہوتے، جب یہ پتا چل جائےکہ کوئی خواب پورا نہیں ہوسکتا تو اس کا پیچھا چھوڑ دینا چاہیے۔
یہ زندگی میں سکون کے لیے بہت ضروری ہے۔

دستک

خوشی ایک بار دروازے پر دستک دیتی ہے - اگر دروازہ نہ کھولے تو لوٹ جاتی ہے -  غم / دکھ  جب تک دستک   دیتا ہے جب تک دروازہ کھول نہ جایے ، اور نہ کھولنے پر اپنا راستہ خود  بنا لیتا ہے -



دور سے کسی دوسرے کو گرتا دیکه ہنستے ہیں - اور جب خود گرتے ہیں تو ہنسنا بھول جاتے ہیں -

Monday, February 17, 2014

جن لوگوں کو ہم آسمان پر بیٹھا دیتے ہیں

جن لوگوں کو ہم آسمان پر بیٹھا دیتے ہیں ، جب وہ زمیں پر گرتے ہیں - تو تکلیف ہم کو ہوتی ہیں -

Saturday, February 15, 2014

اسکول کی گھنٹی

اسکول کی گھنٹی

یہ قبل از وقت کیوں‌ بجنے لگی ، اسکول کی گھنٹی
ابھی تو بستے سے
امی کے ہاتھوں کی حرارت تک نہیں‌ اتری
ابھی تو پانی کی بوتل کا پانی سر بسر سیماب صورت ہے
ابھی قرطاس ابیض پر کوئی تارا نہیں‌ اترا
ابھی نوکِ قلم سے آگہی کی ضو نہیں پھوٹی
کتابوں کے ورق پر چاندنی پھیلی نہیں اب تک
حروف و صورت کے انوار سے
دانش کدے کی رُت نہیں بدلی
عروسِ صبحِ نو کے پیراہن پر گفتگو کرنے
ہماری مِس نہیں آئیں
ابھی ایک دوسرے سے
دوستوں نے یہ نہیں پوچھا
برائے لنچ ہم اپنے گھروں سے
لائے ہیں کیا کیا ، یہ دس کا نوٹ
گھنٹے بھر سے ، میری جیب میں جو کسمساتا ہے
ابھی اس کی خبر پہنچی نہیں ہے
میرے یاروں تک
ابھی تو ہم نے پوچھا ہی نہیں ایک دوسرے سے
کہ کل کا دن گزارا کس طرح ‌‌سے ہم نے
اور آج اسکول کے بعد
اور کیا کیا ہم کو کرنا ہے
یہ آخر کون ہے
جس کا تھکن نا آشنا بازو
بجائے جا رہا ہے دیر سے
چھٹی کی گھنٹی
مسلسل پانچ ، چھ منٹوں سے
اس کا شور جاری ہے
یہ گھنٹی وہ نہیں
جس کی صدائے دم نشین سے
ہم شناسا ہیں
یہ کوئی اور گھنٹی ہے ، مگر گھنٹی تو گھنٹی ہے
کہ جس کے بجنے کے معنی ہیں
چھٹی ، سو آؤ چھٹی کرتے ہیں
بہت شدت سے ہے اصرار
آؤ ، چھٹی کرتے ہیں

---

(رفیع الدین راز)

موت کا ایک دن معین ہے

کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

Wednesday, February 12, 2014

جو چزیں ہاتھ میں نہیں ہوتی

جو چزیں ہاتھ میں نہیں ہوتی ، ان کے بارے میں نہیں سوچنا چاہے-
اور جو چیزیں ہاتھ میں ہوں اور سمھج میں نہ ای
ے  ، انہوں چھوڑ دینا چاہے-
وہ اپنی شکل خود بنا لیتی ہیں -