جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانئہ دل کے مکینوں میں
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے
تو نے اے مجنوں
کہ لیلیٰ کیطرح تو خود بھی ہے
محمل نشینوں میں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے
ہیں سفینوں میں
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس
ان کی
الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے
اہلِ دل کے سینوں میں
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں
ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں
اپنی آستینوں میں
ترستی ہے نگاہِ نارسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انہیں خلوت گزینوں میں
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ نشینوں میں
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے
چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں
خاموش
اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے
محبت کے قرینوں میں برا سمجھوں انہیں،
مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں