Tuesday, April 19, 2011

عجیب اپنی یہ زندگی ہے

عجیب اپنی یہ زندگی ہے
سمیٹو جتنا بکھر رہی ہے

ہم ایک پل کو بھی جی نہ پائے
یہ لمحہ لمحہ گزر رہی ہے

عجیب اپنی یہ زندگی ہے
ہیں خواہشوں کے ہی پیچھے بھاگے

حسرتوں کو گلے لگائے
یہ آج آنکھوں میں جو نمی ہے
یہ اپنے خوابوں کی بے بسی ہے


دلوں کی باتیں جو کہ نہ پا یے
ہمارے آنسو جو بہ نہ پا یے
تمہارے جانے کی بعد ہم بھی کہیں
سکوں سہ کہی رہ نہ پا یے
ہر ایک راستے پر روک رہی ہے
ہماری چاہت بھٹک رہی ہے
عجیب اپنی یہ زندگی ہے

Saturday, April 16, 2011

کشتیاں جلا آیے -

ہم جو  کشتیاں پیچھے چھوڑ اتے ہیں
ان پر پھر سے سوار ہونے میں ڈرتے ہیں
تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے
پیچھے کوئی کشتی باقی بچی ہے یا نہیں .