عجیب اپنی یہ زندگی ہے
سمیٹو جتنا بکھر رہی ہے
ہم ایک پل کو بھی جی نہ پائے
یہ لمحہ لمحہ گزر رہی ہے
عجیب اپنی یہ زندگی ہے
ہیں خواہشوں کے ہی پیچھے بھاگے
حسرتوں کو گلے لگائے
یہ آج آنکھوں میں جو نمی ہے
یہ اپنے خوابوں کی بے بسی ہے
دلوں کی باتیں جو کہ نہ پا یے
ہمارے آنسو جو بہ نہ پا یے
تمہارے جانے کی بعد ہم بھی کہیں
سکوں سہ کہی رہ نہ پا یے
ہر ایک راستے پر روک رہی ہے
ہماری چاہت بھٹک رہی ہے
عجیب اپنی یہ زندگی ہے
No comments:
Post a Comment