Thursday, June 26, 2014

آوازوں کی ضرورت

بعض دفعہ چہرے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔صرف آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے
کسی ایسی آواز کی جس میں ہمدردی ہو
جو آپ کے وجود کے تمام ناسوروں کو نشتر کی طرح کاٹ پھینکے اور پھر بہت نرمی سے ہرگھاؤ کو سی دے-

وقت زندگی کو کس طرح بہا کر لے جاتا ہے

وقت زندگی کو کس طرح بہا کر لے جاتا ہے کہ
انسان خود بھی اسے روکنے بیٹھے تو روک نہ سکے
گزر جانے والے لمحوں کو گننے بیٹھے تو گنتی بھول جائے ۔

~ عمیرہ احمد

انا،عزت نفس اوراعتراف محبت

ایک دفعہ اعتراف محبت کے بعد ساری مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔ آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے پھر آپ دوسرے فریق کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔جو کچھ کرنا ہوتا ہے اسں نے کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انا،عزت نفس نام کی چیزیں منٹوں میں غائب ہو جاتی ہیں پھر آپ کا وجود صرف نام کا وجود رہتا ہے۔

Tuesday, June 24, 2014

ایک کپ کافی دیوار پر - وینس میں

ہم دونوں دوست ، پانیوں اور روشنیوں کے شہر وینس کےایک نواحی قصبے کی مشہور کافی شاپ پر بیٹھے ہوئے کافی سے لظف اندوز ہو رہے تھے کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا جو ہمارے ساتھ والی میز کو خالی پا کر یہاں آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دیکر بلایا اور اپنا آرڈر یوں دیا؛ دو کپ کافی لاؤ، اور اس میں سے ایک وہاں دیوار پر۔
ہم نے اس شخص کےاس انوکھے آرڈر کو دلچپسی سے سنا۔ بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کا کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس صاحب نے کافی کا وہ ایک کپ نوش کیا مگر پیسے دو کے ادا کئے۔ اس گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورقہ چسپاں کر دیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو اور گاہک آئے جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا، دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر، پیئے تو انہوں نے دو ہی کپ، مگر ادائیگی تین کپ کی اور چلتے بنے۔ ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے ویسا ہی کیا، جا کر دیوار پر ایک اور ورقہ چسپاں کردیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔
ایسا لگتا تھا یہاں ایسا ہونا معمول کی بات ہے مگر ہمارے لئے انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔ خیر، ہمیں کونسا اس معاملے سے کچھ لینا دیا تھا، ہم نے اپنی کافی ختم کی، پیسے ادا کیئے اور چلتے بنے۔
 
چند دنوں کے بعد ہمیں ایک بار پھر اس کافی شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ یہاں ایک ایسا شخص داخل ہوا جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛ ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ۔ بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیئے چلتا بنا۔ ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ بیرے نے دیوار پر لگے ہوئے ورقوں میں سے ایک ورقہ اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اب ہمارے لئے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، ہمیں سارے معاملے کا پتہ چل گیا تھا۔اس قصبے کے باسیوں کی اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے بھگو کر رکھ دیا تھا۔
کافی نا تو ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے اور نا ہی ہمارے لئے واجبات زندگی طرح کی اہم کوئی کوئی چیز۔ بات تو صرف اس سوچ کی ہے کہ کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ ان لوگوں کا تصور ہی کرلیں جو اس نعمت کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ آپ مگر وہ اس کے حصول سے محروم ہیں۔
اس بیرے کے کردار کو دیکھیئے جو صاحب حیثیت لوگوں اور ضرورتمندوں کے درمیان رابطے کا کردار نہایت خندہ پیشانی اور کھلے دل کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ سجائے کر رہا ہے۔
اس ضرورتمند کو دیکھیئے جو اس کافی شاپ میں اپنی عزت نفس کو مجروح کیئے بغیر ہی داخل ہوتا ہے، اور اسے یہ پوچھنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آیا اس کو ایک کپ کافی مفت میں مل سکتا ہے یا نہیں۔ اس نے دیوار پر دیکھا، کافی کا آرڈر موجود پا کر، یہ پوچھے اور جانے بغیر ہی، کہ یہ کپ کس کی طرف سے اس کو دیئے جانے کیلئے موجود ہے، اپنے لئے ایک کپ کا آرڈر دیا، کافی کو سرور کے ساتھ پیا اورخاموشی سے چلتا بنا۔
جب ہم اس مذکورہ بالا کہانی کی جزئیات کو جانیں گے تو ہمیں اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ ساتھ اس دیوار کے کردار کو بھی یاد رکھنا پڑے گا جو اس قصبے کے درد دل رکھنے والے باسیوں کی عکاس بنی ہوئی ہے۔

زندگی گلزار ہے

آج میں بہت تھک گئی ہوں۔اور پتا نہیں بعض دفعہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آپ تھک جاتے ہیں حالانکہ آپ نےنہ کوئی جسمانی مشقت کی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ذہنی
پھر بھی زندگی بیکار لگتی ہے اوراپنا وجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا وجود بوجھ لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

عمیرہ احمد: زندگی گلزار ہے —

قسمت اور امتحان

زندگی کا ہر امتحان انسان ذہانت اور محنت سے پاس نہیں  کر سکتا، بعض امتحانوں کے لیے قسمت کے علاوہ اور کوئی چیز درکار نہیں ہوتی۔

زندگی اور کھیل میں فرق

زندگی اور کھیل میں بہت فرق  ہوتا ہے۔ کھیل کو ہم کھیلتے ہیں لیکن زندگی ہمیں کھیلتی ھےہم زندگی کے مہرے ہوتے ہیں زندگی کو مہرہ نہیں بنا سکتے۔

جیت

وہ جنگیں لڑنا بے وقوفی ہوتی ہے جن میں ہونے والی جیت بھی ہماری زندگی کے لیے ضروری نہ ہو۔

Monday, June 23, 2014

تقسیم / ضرب

 محبت کو تقسیم کی بجائے ضرب بھی دی جا سکتی ہے

مجبور عورت

مرد  بیوی کو  مجبور کر سکتا ہے کہ وہ اس کی بات مانے مگر عورت  شوہر کو اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کر سکتی -   یہ کیسا انصاف ہے

~~~~~~~

   ‫دنیا عورت کے ماضی کو کبھی نہیں بھولتی- دنیا صرف مرد کے ماضی کو بھول جاتی ہے-

الجھی ہوئی ڈور کا ڈھیر

جب کوئی شخص الجھی ہوئی ڈور کے ڈھیر میں سے اس کا سرا تلاش کر لیتا ہے تو پھر ہر آدمی اسے الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے میں مدد دینے لگتا ہے ........ حالانکہ اس وقت مدد کی ضرورت باقی نہیں ہوتی- ڈور سلجھنے کے بعد ہر شخص اس کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتا ہے-

ایک گھونٹ پانی ایک قطرہ

اگر سیلاب کے پانی کو ہم تک آنا ہے تو وہ سارے بند توڑ کر آ جائے گا- اگر ہماری قسمت میں پانی ایک قطرہ لکھا ہے ایک گھونٹ نہیں تو ہم دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی ایک قطرہ ہی پی سکیں گے، ایک گھونٹ نہیں -

Tuesday, June 17, 2014

Life is never the same again

Life is never the same again
سیاحت انسان کی زندگی بدل ڈالتی ھے آپ ایک دفعہ پہاڑوں پر نکل جائیں تو واپسی پر آپ ویسے نہیں ہوتے‘
 آپ بدل جاتے ہیں پہاڑوں کا سفر انسان کو بدل ڈالتا ھے۔

تنہائی سے کیوں گھبراتے ہو۔

اگر تم تنہا ہو اوروقت کے دل شکن لمحات تمھارے دل کے محسوسات کو پامال کر رہے ہیں تو کیا ہوا، تم اس دنیا میں اکیلے آئے تھے اکیلے ہی جاؤ گے جب قدرت نے تمھیں اکیلا ہی تخلیق کیا ہے تو پھر تنہائی سے کیوں گھبراتے ہو۔

سرابوں کے پیچھے - - - ! ! !

بہت سے لوگ دنیا میں جان بوجھ کر دھوکا کھاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم جس بندے پر اپنے خالص جذبات کا خزانہ لٹا رہے ہیں وہ اس قابل نہیں ہے۔ اس کے باوجود انسان بڑا خوش فہم واقع ہوا ہے۔ وہ ایک ذرا سی امید اور خوش گمانی کے چکر میں اپنی محبت کے مدار کے اردگرد چکر لگاتا رہتا ہے کہ شاید کہیں کوئی اندر جانے کا راستہ مل جائے۔ ایسے لوگ جان بوجھ کر اپنے دل کے کہنے پر سرابوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور آخر کار تھک ہار کر گرجاتے ہیں __!!

بیتی ہُوئی گھڑیوں کی آرزو

بیتی ہُوئی گھڑیوں کی آرزو کرنا ایسا ہی ہے جیسے ٹوتھ پیسٹ کو واپس ٹیوب میں گُھسانا! لاکھ یہ دنیا ظلمت کدہ سہی۔ لیکن کیا اچّھا ہو کہ ہم ماضی کے دُھندلےخاکوں میں چیختے چنگھاڑتے رنگ بھرنے کی بجائےحال کو روشن کرنا سیکھیں۔

Sunday, June 15, 2014

راہِ طلب میں کون کسی کا ، اپنے بھی بیگانے ہیں

Poet: Ibne Safi - Singer: Habib Wali Muhammad
شاعر: ابن صفی - گلوکار: حبیب ولی محمّد

راہِ طلب میں کون کسی کا ، اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشکِ غزالاں سب جانے پہچانے ہیں

تنہائی سی تنہائی ہے ، کیسے کہیں ، کیسے سمجھائیں
چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

اُف! یہ تلاشِ حسن و حقیقت کس جا ٹھہریں جائیں کہاں
صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں ، صحرا میں دیوانے ہیں

ہم کو سہارے کیا راس آئیں ، اپنا سہارا ہیں ہم آپ
خود ہی صحرا ، خود ہی دِوانے شمع نفس پروانے ہیں

بلآخر تھک ہار کے یارو ! ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا ، باقی سب افسانے ہیں

Rah main kon kesi ka , aapnya bhi bagany hain

https://www.youtube.com/watch?v=IkJjVdxNBzs

جب ترے شہر سے گزرتا ھوں


جب ترے شہر سے گزرتا ھوں

کس طرح روکتا ھوں اشک اپنے

کس قدر دل پہ جبر کرتا ھوں

آج بھی کارزار ھستی میں!

جب ترے شہر سے گزرتا ھوں

اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم

کس محلے میں ھے مکاں تیرا

کون بتلائے گا نشاں تیرا

تیری رسوائیوں سے ڈرتا ھوں

جب ترے شہر سے گزرتا ھوں

حال دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ

تو رھی مدتوں قریب مرے

تو مجھے چھوڑ کے چلی بھی گئی

خیر قسمت مری نصیب مرے

گو زمانہ تری محبت کا
 ایک بھولی ھوئی کہانی ھے

کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا

کس محبت سے ھار مانی ھے

اشک پلکوں پہ آنہیں سکتے

دل میں ھے تیری آبرو اب بھی

تجھ سے روشن ھے کائنات مری

ترے جلوے ھیں چار سو اب بھی

اب بھی میں تجھ کو پیار کرتا ھوں

جب ترے شہر سے گزرتا ھوں

آج بھی کارزار ھستی میں

تو اگر ایک بار مل جائے

آرزوؤں کو چین آجائے

دل بھی کرتا ہے یاد چھپ کے تجھے


دل بھی کرتا ہے یاد چھپ کے تجھے
نام لیتی نہیں زباں تیرا

کس سے پوچھوں گا میں خبر تیری
کون بتلائے گا نشاں تیرا

تیری رسوائیوں سے ڈرتا ھوں
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں

حال دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ
تو رھی مدتوں قریب مرے

تو مجھے چھوڑ کر چلی بھی گئی
خیر قسمت مری نصیب مرے

اب میں کیوں تجھ کو یاد کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

گو زمانہ تری محبت کا
ایک بھولی ھوئی کہانی ھے

کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا
کس محبت سے ھار مانی ھے

اپنی قسمت پے ناز کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں

کوئی پرسان حال ہو تو کہوں
کیسی آندھی چلی ہے تیرے بعد

دن گزارا ہے کس طرح میں نے
رات کیسے ڈھلی ہے تیرے بعد

روز جیتا ہوں، روز مرتا ہوں
جب ترے شہر سے گززتا ہوں

وہ جو کہتے ہیں مجھ کو دیوانہ
میں انھیں بھی برا نہیں کہتا

ورنہ اک بے نوا محبت میں
دل کے لٹنے پہ، کیا نہیں کہتا

میں تو مشکل سے آہ بھرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

آج بھی کار زار ہستی میں
تو اگر ایک بار مل جائے

چین آجائے آرزوؤں کو
حسرتوں کو قرار مل جائے

جانے کیا کیا خیال کرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں


Sunday, June 08, 2014

Wednesday, June 04, 2014

حادثے

یہ جو حادثے ہوتے ہیں۔۔۔۔بڑے رہنما ہوتے ہیں ۔۔۔۔انسان کے شعور کو آگہی کی اس منزل تک لے جاتے ہیں۔۔۔جہاں عام حالات میں جانا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔۔ انسان اپنے آپ کو یوں سرنگوں پاتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔اس کی ذات کا تمام غرور خاک ہوجاتی ہے۔

100 %

کبھی بھی کوئی 100 % سہی نہیں ہو سکتا
 -

اب خوشی نہیں محسوس ہوتی

اب خوشی نہیں محسوس ہوتی --- !!!

Monday, June 02, 2014

بس ایک نام کی چھاؤں -

بس ایک نام کی چھاؤں -

دوسروں کا لہذ

کبھی کبھی انسسان  دوسروں کا لہذ کرتے کرتے انسان اپنا ستیا ناس کر لے تا ہے -

دوسرے کے بارے میں رائے

کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی نیت نہیں جان سکتا۔ وہ اس کا دل چیر کر نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اس کے ذہن کے اندر نہیں اتر سکتا۔سب سے بڑھ کر کسی دوسر ے کے متعلق رائے قائم کرنے والا خود غلط ہوسکتا ہے۔  وحی نہیں آتی۔۔ اس لیے یہ اس کا حق ہی نہیں کہ کسی دوسرے فرد کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔ رائے ہمیشہ دوسرے کی رائے کے بارے میں دی جاتی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اس کی شخصیت، آخرت، ایمان اورنیت کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

خواری اور ذمےداری

زندگی میں ساری بورایوں کی جڑ شادی ہی ہوتی ہے لڑکی کے لیے-
شادی کے بعد خواری اور ذمےداری بن جاتی ہے زندگی-