نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاد کادِ سخت جانیہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
غالب
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کاد کادِ سخت جانیہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
غالب
No comments:
Post a Comment