کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نا بہ فشانی میری
دیکھ خوں نا بہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں ز خود رفتۂ بیداۓ خیال
بھول جانا ہے نشانی میری
بھول جانا ہے نشانی میری
متقابل ہے مقابل
میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
رک گیا دیکھ روانی میری
قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد بادِ رہِ بے تابی
ہوں
صرصرِ شوق ہے بانی میری
صرصرِ شوق ہے بانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری
کھل گئی ہیچ مدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالب
ننگِ پیری ہے جوانی میری
ننگِ پیری ہے جوانی میری
No comments:
Post a Comment