Sunday, February 15, 2015

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
 
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
 
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
 
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
 
تھے بہت بیدرد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
 
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
 
دل تو چاہا پر شکستہ دل نے مہلت ہی نہ دی
 
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
 
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
 
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

No comments:

Post a Comment