سُلگتے ہوئے مدتیں ہو گئیں
پگھلتے ہوئے مدتیں ہو گئیں
زمانہ ہوا کچھ نہ کہتے ہوئے
کاش ایسا ہو کہ اب کے لَب کُشائی میں کروں
کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں
نصیبا میرا اس لیے سو چکا
میرا چین اس واسطے کھو چکا
پریشاں بھی اور برباد بھی
بہت ہو چکا دل، بہت ہو چکا
کاش ایسا ہو کہ اب کے جگ ہسائی میں کروں
کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں
بہت میں نے چاہا بہت دکھ سہا
کہ آنکھوں سے آنسو نہیں خوں بہا
بہت قربتیں تھیں بہت چاہتیں
مگر ہر تعلق ادھورا رہا
کاش ایسا ہو کہ اب کے نا آشنائی میں کروں
کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں
ہوائے محبت کا رُخ موڑنا
میرے بس میں ہوتا تجھے چھوڑنا
تماشا لگے دل کے آئینے کو
کبھی توڑنا اورکبھی جوڑنا
کاش ایسا ہو کہ اب کے کج ادائی میں کروں
کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں
ہوُا دور پھر میری آنکھوں سے نُور
نا باقی رہا میرے دل کا سُرور
رہے میری بے چینی چاہے یوں ہی
نا باقی رہے کاش تیرا غرور
کاش ایسا ہو کہ اب کے خود نُمائی میں کروں
کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں
No comments:
Post a Comment