Saturday, February 15, 2014

اسکول کی گھنٹی

اسکول کی گھنٹی

یہ قبل از وقت کیوں‌ بجنے لگی ، اسکول کی گھنٹی
ابھی تو بستے سے
امی کے ہاتھوں کی حرارت تک نہیں‌ اتری
ابھی تو پانی کی بوتل کا پانی سر بسر سیماب صورت ہے
ابھی قرطاس ابیض پر کوئی تارا نہیں‌ اترا
ابھی نوکِ قلم سے آگہی کی ضو نہیں پھوٹی
کتابوں کے ورق پر چاندنی پھیلی نہیں اب تک
حروف و صورت کے انوار سے
دانش کدے کی رُت نہیں بدلی
عروسِ صبحِ نو کے پیراہن پر گفتگو کرنے
ہماری مِس نہیں آئیں
ابھی ایک دوسرے سے
دوستوں نے یہ نہیں پوچھا
برائے لنچ ہم اپنے گھروں سے
لائے ہیں کیا کیا ، یہ دس کا نوٹ
گھنٹے بھر سے ، میری جیب میں جو کسمساتا ہے
ابھی اس کی خبر پہنچی نہیں ہے
میرے یاروں تک
ابھی تو ہم نے پوچھا ہی نہیں ایک دوسرے سے
کہ کل کا دن گزارا کس طرح ‌‌سے ہم نے
اور آج اسکول کے بعد
اور کیا کیا ہم کو کرنا ہے
یہ آخر کون ہے
جس کا تھکن نا آشنا بازو
بجائے جا رہا ہے دیر سے
چھٹی کی گھنٹی
مسلسل پانچ ، چھ منٹوں سے
اس کا شور جاری ہے
یہ گھنٹی وہ نہیں
جس کی صدائے دم نشین سے
ہم شناسا ہیں
یہ کوئی اور گھنٹی ہے ، مگر گھنٹی تو گھنٹی ہے
کہ جس کے بجنے کے معنی ہیں
چھٹی ، سو آؤ چھٹی کرتے ہیں
بہت شدت سے ہے اصرار
آؤ ، چھٹی کرتے ہیں

---

(رفیع الدین راز)

No comments:

Post a Comment