Sunday, May 11, 2014

کرو، جو بات کرنی ہے


کرو، جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پہ بیٹھے، کہ دنیا
بس تمہیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لئے رُکنا نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تُم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بِنا دیکھے، بِنا ٹھہرے
جِسے تُم وقت کہتے ہو
دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو، جو بات کرنی ہے

No comments:

Post a Comment