Monday, September 01, 2014

دل کی یہ خواہش تھی کہ چاہے جائیں ہم

  
دل کی یہ خواہش تھی کہ چاہے جائیں ہم
یہ کب چاہ تھا کہ زندہ دفنائیں جائیں ہم

اب کی بار کچھ ایسے بھٹکے ہیں منزل سے
کس کو خبر کہ اس بار کہاں پائیں جائیں ہم

میرے دشمن لاکھ نفرتیں بھریں ذہنوں میں
رضائے الہی سے سب کے دلوں میں سمائے جائیں ہم

بڑے دکھ دیے ہیں سستی شہرت کے پجاریوں نے
فراخ دل ہیں اتنے کے مسکرائے جائیں ہم

ہے انکساری اپنی فطرت میں شامل اصغر
اسی لیے تو ہر دلعزیز کہلائے جائیں ہم

No comments:

Post a Comment