گھر ہمیشہ مہربانیوں سے لٹتے ہیں۔نیء محبتوں سے اجڑتے ہیں۔ایسی مہربانیاں
جو گھر کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ایسی مہربانیاں جو ماں سے زیادہ چاہ کر
کی جاتی ہیں۔جب کویءچاہنے والا گھر کے ایک فرد کی انا کو جگا کر اسے وہ
سارے مظالم سمجھاتا ہے جو گھر کے دوسرے فرد اس پر کرتے رہے ہوتے ہیں۔وہ ان
ساری لڑاءیوں کے ڈھکے چھپے معنی واضح کر دیتا ہے تو گھر کی پہلی اینٹ گرتی
ہے۔گھر کی ایک ایک اینٹ محبت سے اکھاڑی جاتی ہے۔ہر چوگاٹ،ہر دہلیز چوم چوم
کر توڑی جاتی ہے۔جب باہر کا چاہنے والا لفظوں میں شیرینی گھول کر گھر والوں
کے خلاف بہکاتا ہے تو پھر کویء سالمیت باقی نہیں رہتی۔کیونکہ ہر انسان
کمزور لمحوں میں خود ترسی کا شکار رہتا ہے وہ اس بات کی تصدیق میں لگا رہتا
ہے کہ اس پر مظالم ہوےء اور اسی لیےء وہ ظلم کرنے میں حق بجانب ہے۔
No comments:
Post a Comment