بہت جی چاہتا ہے
مَیں ترے شانوں پہ سر رکھ کر
بہا ڈالوں وہ سب آنسو.
...
جو میرے دل کی شریانوں میں چھبتے ہیں
اُبلتے ہیں کسی لاوے کی صورت
اور آنکھوں تک نہیں آتے.
کسی آغاز سے پہلے کسی انجام کے آنسو
ترے ہمراہ سوچی عمر کی اک شام کو آنسو.
کہیں دشتِ محبت میں
نظر کی خوش خیالی کے سنہری دام کے آنسو
یہ تیرے نام کے آنسو.
بہا دوں سب
ترے شانوں پہ سر رکھ کر
تو شاید زندگی کا راستہ
پھر سے چراغ آثار ہو جائے.
اَنا کے قصہء نا مختمم میں ہار کا اقرار ہو جائے
یہ دریا فاصلوں کا
لمحہ بھر میں پار ہو جائے
No comments:
Post a Comment