Monday, August 17, 2015

زندگی کے میلے میں

زندگی کے میلے میں
خواہشوں کے ریلے میں

تم سے کیا کہیں جاناں
اس قدر جھمیلے میں

وقت کی روانی ہے،
بخت کی گرانی ہے

سخت بے زمینی ہے،
سخت لامکانی ہے

ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی

ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے

بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے

عمر بھر کی باتیں کب
دو گھڑی میں ہوتی ہیں

درد کے سمندر میں
اَن گِنت جزیرے ہیں،

بے شمار موتی ہیں!
آنکھ کے دریچے میں

تم نے جو سجایا تھا
بات اس دیئے کی ہے

بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں

چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پہ

ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے،

بات رَت جگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو

بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں

گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو

اِک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سن جاؤ

No comments:

Post a Comment