محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
ہماری یاد کوبھی ساتھ لے لینا
سنا ہے اس جزیرے پر کبھی دو ہنس رہتے تھے
وہ دونوں ایک دوجے کے دلوں پر راج کرتے تھے
وہ اک دوجے کی آنکھوں میں اُترکر خواب چُنتے تھے
وفا کے تانے بانے ریشمی باتوں سے بُنتے تھے
پھر اس کی روز ہی تجدیدبھی کرتے
مگر رُت کے بدلتے ہی ہوا ایسے
وہ دونوں مختلف سمتوں میں چل نکلے
سُنا ھےپھر کبھی اک ساتھ دونوں کو نہیں دیکھا
محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
تواس تنہا شجر کے پاس بھی جانا
کہ جس کی ساری شاخوں کے لبادے پر،
ہر اک جانب کسی کا نام لکھّا ہے
سنا ہے لکھنے والا ،زندگی بھر پھر کبھی کچھ لکھ نہیں پایا
وہ اپنی انگلیوں پر خون کی مہریں لگا بیٹھا
مقدّر دار کر بیٹھا ۔۔۔وہ خود کو ہار کر،بیٹھا
محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
ہماری یاد کو بھی ساتھ لے لینا
ہماری یاد تپتی دھوپ میں چھاؤں کی صورت ہے
یہ ماضی کے کسی معصوم سے گاؤں کی صورت ہے
No comments:
Post a Comment