Sunday, August 16, 2015

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے وہاں جانا پڑے تم کو ہماری یاد کوبھی ساتھ لے لینا سنا ہے اس جزیرے پر کبھی دو ہنس رہتے تھے وہ دونوں ایک دوجے کے دلوں پر راج کرتے تھے وہ اک دوجے کی آنکھوں میں اُترکر خواب چُنتے تھے وفا کے تانے بانے ریشمی باتوں سے بُنتے تھے پھر اس کی روز ہی تجدیدبھی کرتے مگر رُت کے بدلتے ہی ہوا ایسے وہ دونوں مختلف سمتوں میں چل نکلے سُنا ھےپھر کبھی اک ساتھ دونوں کو نہیں دیکھا محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے وہاں جانا پڑے تم کو تواس تنہا شجر کے پاس بھی جانا کہ جس کی ساری شاخوں کے لبادے پر، ہر اک جانب کسی کا نام لکھّا ہے سنا ہے لکھنے والا ،زندگی بھر پھر کبھی کچھ لکھ نہیں پایا وہ اپنی انگلیوں پر خون کی مہریں لگا بیٹھا مقدّر دار کر بیٹھا ۔۔۔وہ خود کو ہار کر،بیٹھا محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے وہاں جانا پڑے تم کو ہماری یاد کو بھی ساتھ لے لینا ہماری یاد تپتی دھوپ میں چھاؤں کی صورت ہے یہ ماضی کے کسی معصوم سے گاؤں کی صورت ہے

No comments:

Post a Comment