Saturday, August 08, 2015

کاغذ کی کشتی


اگر تم کو محبت تھی تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں  ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا ۔۔۔ درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟
 وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گُلاب اور میں مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا تمھیں بھی یاد تو ہو گا؟
اگر تم کو محبت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟
 نہیں ! محبت تم نے دیکھی ہے، محبت تم نے پائی ہے محبت کی نہیں تم نے

No comments:

Post a Comment