بجھی ہوئی شمع کا دھواں ھوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ھوں
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں
تیری ہی صورت کے دیکھنے کو بتوں کی تصویریں لا رہا ھوں
کہ خوبیاں سب کی جمع کر کے تیرا تصور جما رہا ھوں
کفن میں خود کو چھپا لیا ھے کہ تجھ کو پردے کی ھو
نہ زحمت
نقاب اپنے لیے بنا کر حجاب تیرا اٹھا رہا ھوں
ادھر وہ گھر سے نکل پڑے ہیں ادھر میرا دم نکل رہا ہے
الہی کیسی ہے یہ قیامت وہ آ رہیں ہیں میں جا رہا ہوں
محبت انسان کی ھے فطرت کہاں ھے امکان ترک الفت
وہ اور بھی یاد آ رہے ہیں
میں ان کو جتنا بھلا رھا ھوں
زبان پہ لبیک ہر نفس میں جبیں پہ سجدہ ہے
ہر قرم پہ
یوں جا رہا بت کدے کو ناطق کہ جیسے کعبے کو جا رہا ہوں
بجھی ہوئی شمع کا دھواں ھوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ھوں
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں
No comments:
Post a Comment