Sunday, August 09, 2015

کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں

بجھی ہوئی شمع کا دھواں ھوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ھوں 
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں 
تیری ہی صورت کے دیکھنے کو بتوں کی تصویریں لا رہا ھوں 
کہ خوبیاں سب کی جمع کر کے تیرا تصور جما رہا ھوں 
کفن میں خود کو چھپا لیا ھے کہ تجھ کو پردے کی ھو 
نہ زحمت نقاب اپنے لیے بنا کر حجاب تیرا اٹھا رہا ھوں 
ادھر وہ گھر سے نکل پڑے ہیں ادھر میرا دم نکل رہا ہے 
الہی کیسی ہے یہ قیامت وہ آ رہیں ہیں میں جا رہا ہوں 
محبت انسان کی ھے فطرت کہاں ھے امکان ترک الفت وہ اور بھی یاد آ رہے ہیں 
میں ان کو جتنا بھلا رھا ھوں زبان پہ لبیک ہر نفس میں جبیں پہ سجدہ ہے 
ہر قرم پہ یوں جا رہا بت کدے کو ناطق کہ جیسے کعبے کو جا رہا ہوں 
بجھی ہوئی شمع کا دھواں ھوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ھوں 
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ھے اب اپنی ہستی مٹا رہا ھوں

No comments:

Post a Comment