اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں
اُداسیوں کا اگر یہ موسم
ٹهر گیا تو عذاب کرے گا،
نہ جی سکو گے نہ مر سکو گے
نہ کام ہی کوئ کر سکو گے
کسی کی ہر پل طلب کرے گا
اُداسیاں
بے سبب نہیں ہیں
سنو جو لمحے ہیں آج حاصل،
انہیں ہمیشہ سنبهال رکهنا
وفا کے گلشن میں چاروں جانب
بہار رکهنا نکهار رکهنا
محبت کا وقار لکهنا،
اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں
جہاں میں کتنے ہی لوگ آے
رہے بسے ہیں
، اجڑ گئے ہیں
مگر یہ جذبے ابد سے ہیں،
اور ازل تک رہیں گے
تم اپنی آنکهوں میں
، پہلے جیسا جال رکهنا
اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں
زرا یہ سوچو بچهڑ گیے تو،
کہاں ملیں گے
یوں ہی رہیں گی تمام راہیں
مگر
یہ راہی نہ مل سکیں گے
بہار میں بهی خزاں کی صورت
نہ پهول ہر سمت کهل سکیں گے
نہ دل کو اپنے اداس رکهنا،
ہر اک جذبے کا پاس رکهنا
ملیں گے آخر یہ آس رکهنا
اُداسیاں بے سبب نہیں ہیں
No comments:
Post a Comment