یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟
نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟
نہیں تو
ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر اس کو
بھلا دینے کی نیت ہے؟
نہیں تو
کسی کے بن ،کسی کی یاد کے بن
جیئے جانے کی ہمت ہے؟
نہیں تو
کسی صورت بھی دل لگتا نہیں ؟
ہاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟
نہیں تو
تیرے اس حال پر ہے سب کو حیرت
تجھے بھی اس پہ حیرت ہے؟
نہیں تو
ہم آہنگی نہیں دینا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ہے؟
نہیں تو
ہوا جو کچھ یہ ہی مقسوم تھا کیا
یہ ہی ساری حکایت ہے ؟
نہین تو
اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو
امان پانے کی حسرت ہے ؟
نہیں تو
تو رہتا ہے خیال و خواب میں گم
تو اس کی وجہ فرصت ہے ؟
نہیں تو
وہاں والوں سے ہے اتنی محبت
یہاں والوں سے نفرت ہے؟
نہیں تو
سبب جو اس جدائی کا بنا ہے
وہ مجھ سے خوبصورت ہے؟
No comments:
Post a Comment